قرآن مجید کے ناموں میں سب سے اہم نام ’’القرآن‘‘ ہے‘ جس کے لیے میں نے لفظ exclusive استعمال کیا تھا کہ یہ کسی اور کتاب کے لیے استعمال نہیں ہوا‘ ورنہ تورات کتاب بھی ہے‘ ہدایت بھی تھی‘ اور اس کے لیے لفظ نوربھی آیا ہے. ارشاد ہوا: اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ (المائدۃ:۴۴) ’’ہم نے تورات نازل کی جس میں ہدایت بھی ہے اور نور بھی‘‘.خود قرآن مجید ہدایت بھی ہے‘ نور بھی ہے‘ رحمت بھی ہے .تو بقیہ تمام اوصاف تو مشترک ہیں ‘لیکن القرآن کے لفظ کا اطلاق کتب سماویہ میں سے کسی اور کتاب پر نہیں ہوتا. یہ امتیازی ‘ اختصاصی اور استثنائی نام صرف قرآن مجید کے لیے ہے. اسی لیے ایک رائے یہ ہے کہ یہ اسم علَم ہے ‘اور اسم جامد ہے‘ اسم مشتق نہیں ہے.
اللہ تعالیٰ کے نام ’’اللہ‘‘ کے بارے میں بھی ایک رائے یہ ہے کہ یہ اسم ذات ہے‘ اسم علم ہے‘ اسم جامد ہے‘ مشتق نہیں ہے‘ یہ کسی اور مادے سے نکلا ہوا نہیں ہے. جبکہ ایک رائے یہ ہے کہ یہ بھی صفت ہے‘ جیسے اللہ تعالیٰ کے دوسرے صفاتی نام ہیں. جیسے ’’علیم‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور ’’العلیم‘‘ نام ہے‘ رحیم صفت ہے اور ’’الرحیم‘‘ نام ہے‘ اسی طرح الٰہ پر ’’ال‘‘ داخل ہوا تو ’’الالٰہ‘‘ بن گیا اور دو لام مدغم ہونے سے یہ ’’اللہ‘‘ بن گیا. یہ دوسری رائے ہے. جو معاملہ لفظ اللہ کے بارے میں اختلافی ہے بعینہٖ وہی اختلاف لفظ قرآن کے بارے میں ہے. ایک رائے یہ ہے کہ یہ اسم جامد اور اسم علم ہے‘ اس کا کوئی اور مادہ نہیں ہے ‘جبکہ دوسری رائے یہ ہے کہ یہ اسم مشتق ہے. لیکن پھر اس کے مادے کی تعیین میں اختلاف ہے.
ایک رائے کے مطابق اس کا مادہ ’’قرن‘‘ ہے ‘یعنی قرآن میں جو ’’ن‘‘ ہے وہ بھی حرفِ اصلی ہے. دوسری رائے کے مطابق اس کا مادہ ’’ق ر ء‘‘ ہے. یہ گویا مہموز ہے.میں یہ باتیں اہل علم کی دلچسپی کے لیے عرض کر رہا ہوں. جن لوگوں نے اس کا مادہ ’’قرن‘‘ مانا ہے ‘اُن کی بھی دو رائیں ہیں. ایک رائے یہ ہے کہ جیسے عرب کہتے ہیں ’’قَرَنَ الشَّیئَ بِالشَّیْئِ‘‘ (کوئی شے کسی دوسرے کے ساتھ شامل کر دی گئی )تو اس سے قرآن بنا ہے. اللہ تعالیٰ کی آیات‘ اللہ تعالیٰ کا کلام جو وقتاً فوقتاً نازل ہوا‘ اس کو جب جمع کر دیا گیا تو وہ’’قرآن‘‘ بن گیا.امام اشعری بھی اس رائے کے قائل ہیں. جبکہ ایک رائے امام فراء کی ہے ‘جو لغت کے بہت بڑے امام ہیں ‘کہ یہ قرینہ اور قرائن سے بنا ہے. قرائن کچھ چیزوں کے آثار ہوتے ہیں. قرآن مجید کی آیات چونکہ ایک دوسرے سے مشابہ ہیں‘ جیسا کہ سورۃ الزمر میں قرآن مجید کی یہ صفت وارد ہوئی ہے ’’کِتٰبًا مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ ‘‘ . اس اعتبار سے آپس میں یہ آیات قرناء ہیں. چنانچہ قرینہ سے قرآن بن گیا ہے.
جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کا مادہ ق ر ء ہے وہ قرآن کو مصدر مانتے ہیں. قَرَأَ‘ یَقْرَأُ‘ قَرْأً ‘ وَقِرَاءَ ۃً وَقُرْآنًا. یہ اگرچہ مصدر کا معروف وزن نہیں ہے لیکن اس کی مثالیں عربی میں موجود ہیں . جیسے رَجَحَ سے رُجحان اور غَفَرَ سے غُفران. ان کے مادہ میں ’’ن‘‘ شامل نہیں ہے. تو جیسے غفران اور رجحان مصدر ہیں‘ ایسے ہی قرأ سے مصدر قرآن ہے‘ یعنی پڑھنا. اور مصدر بسا اوقات مفعول کا مفہوم دیتا ہے. تو قرآن کا مفہوم ہو گا پڑھی جانے والی شے‘ پڑھی گئی شے. ’’قَرَأَ‘‘ میں جمع کرنے کا مفہوم بھی ہے. عرب کہتے ہیں : قرأتُ المَاءَ فِی الْحَوْضِ ’’میں نے حوض کے اندر پانی جمع کر لیا ‘‘. اسی سے قریہ بنا ہے ‘یعنی ایسی جگہ جہاں لوگ جمع ہو جائیں. گویا قرآن کامطلب ہے اللہ کا کلام جہاں جمع کر دیا گیا. تمام آیات جب جمع کر لی گئیں تو یہ قرآن بن گیا. جیسے قریہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ آباد ہو جائیں‘ مل جل کر رہ رہے ہوں. تو جمع کرنے کا مفہوم قَرَءَ میں بھی ہے اور قرن میں بھی ہے .یہ دونوں مادے ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں. بہرحال یہ اس لفظ کی لغوی بحث ہے.