دَورِ صحابہؓ میں ہمیں ایک تقسیم اور ملتی ہے اور وہ ہے سات منزلوں کی شکل میں سورتوں کی گروپنگ. انہیں احزاب بھی کہتے ہیں. ’’حزب‘‘ کا لفظ احادیث میں ملتا ہے‘ لیکن وہ ایک ہی معنی میں نہیں ہوتا. یہ لفظ اس معنی میں بھی استعمال ہوتا تھا کہ ہر شخص اپنے لیے تلاوت کی ایک مقدار معین کر لیتا تھا کہ میں اتنی مقدار روزانہ پڑھوں گا. یہ گویا کہ اس کا اپنا حزب ہے .چنانچہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِہٖ مِنَ اللَّیْلِ‘ اَوْ عَنْ شَیْ ءٍ مِنْہُ‘ فَقَرَأَہٗ مَا بَیْنَ صَلَاۃِ الْفَجْرِ وَصَلَاۃِ الظُّھْرِ‘ کُتِبَ لَــہٗ کَاَنَّمَا قَرَأَہٗ مِنَ اللَّیْلِ 
(اخرجہ الجماعۃ الا البخاری) 
’’جو شخص نیند( یا بیماری) کی وجہ سے رات کو (تہجد میں) اپنے حزب کو پورا نہ کر سکے‘ پھر وہ فجر اور ظہر کے درمیان اس کی تلاوت کر لے تو اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھا جائے گا گویا اس نے اسے رات کے دوران پڑھا ہے‘‘. (یہ حدیث بخاری کے سوا دیگر ائمہ حدیث نے روایت کی ہے.)

یعنی جو شخص کسی وجہ سے کسی رات اپنے حزب کو پورا نہ کر سکے ‘جتنا بھی نصاب اس نے معین کیا ہو‘ کسی بیماری کی وجہ سے‘ یانیند کا غلبہ ہو جائے ‘تو اسے چاہیے کہ اپنی اس قراءت یا تلاوت کو وہ دن کے وقت ضرور پورا کرلے.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے اکثر کا معمول تھا کہ ہر ہفتے قرآن مجید کی تلاوت ختم کر لیتے تھے. لہذا ضرورت محسوس ہو ئی کہ قرآن کے سات حصے ایسے ہو جائیں کہ ایک حصّہ روزانہ تلاوت کریں تو ہر ہفتے قرآن مجید کا دَور مکمل ہو جائے. اس لیے سورتوں کے سات مجموعے یا گروپ بنا دیے گئے .ان گروپوں کے لیے آج کل ہمارے ہاں جو لفظ مستعمل ہے وہ ’’منزل‘‘ ہے ‘ لیکن احادیث و روایات میں حزب کا لفظ آتا ہے.

احزاب یا منازل کی اس تقسیم میں بڑی خوبصورتی ہے. ایسا نہیں کیا گیا کہ یہ ساتوں حصّے بالکل مساوی کیے جائیں. اگر ایسا ہوتا تو ظاہر بات ہے کہ سورتیں ٹوٹ جاتیں‘ ان کی فصیلیں ختم ہو جاتیں. چنانچہ ہر حزب میں پوری پوری سورتیں جمع کی گئیں. اس طرح احزاب یا منزلوں کی مقداریں مختلف ہو گئیں. چنانچہ کچھ حزب چھوٹے ہیں کچھ بڑے ہیں ‘لیکن ان کے اندر سورتوں کی فصیلیں نہیں ٹوٹیں‘ یہ ان کا حسن ہے. غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ شے بھی شاید اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے.

اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ منزلوںکی تعیین بھی توقیفی ہے ‘لیکن منزلوں کی اس تقسیم میں گنتی کے اعتبار سے جو حسن پیدا ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت ہی کا ایک مظہر ہے. سورۃ الفاتحہ کو الگ رکھ دیا جائے کہ یہ تو قرآن حکیم کا مقدمہ یا دیباچہ ہے تو اس کے بعد پہلا حزب یا منزل تین سورتوں (البقرۃ ‘ آل عمران‘ النساء) پر مشتمل ہے. دوسری منزل پانچ سورتوں پر ‘ تیسری منزل سات سورتوں پر ‘ چوتھی منزل نو سورتوں پر‘پانچویں منزل گیارہ سورتوں پراور چھٹی منزل تیرہ سورتوں پر مشتمل ہے‘ جبکہ ساتویں منزل (حزبِ مفصل) جو کہ آخری منزل ہے ‘اس میں ۶۵ سورتیں ہیں .آخر میں سورتیں چھوٹی چھوٹی ہیں. یاد رہے کہ ۶۵ بھی ۱۳ کا multiple بنتا ہے (۶۵=۵*۱۳). سورتوں کی تعداد جیسا کہ ذکر ہو چکا ۱۱۴ ہے. یہ تعدادمتفق علیہ ہے‘ جس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں . 

آج کل جو قرآن مجید حکومت سعودی عرب کے زیر اہتمام بہت بڑی تعداد میں بڑی خوبصورتی اور نفاست سے شائع ہوتا ہے‘ اس میں حزب کا لفظ بالکل ایک نئے معنی میں آیا ہے. انہوں نے ہر پارے کو دو حزب میں تقسیم کر لیا ہے‘ گویا نصف پارے کی بجائے لفظ حزب ہے .پھر وہ حزب بھی چار حصّوں میں منقسم ہے: رُبع الحزب‘ نصفُ الحزب اور پھر ثلاثۃُ ارباعِ الحزب. اس طرح انہوں نے ہر پارے کے آٹھ حصے بنا لیے ہیں. یہ لفظ حزب کا بالکل نیا استعمال ہے. اس کی کیا سند اور دلیل ہے اور یہ کہاں سے ماخوذ ہے‘ یہ میرے علم میں نہیں ہے.

انسانی کلام حروف و اصوات سے مرتب ہوتا ہے اور ہر زبان میں حروفِ ہجائیہ ہوتے ہیں.پھر حروف مل کر کلمات بناتے ہیں. کلمات سے کلام وجود میں آتا ہے‘ خواہ وہ کلام منظوم ہو یا نثر ہو. اسی طرح قرآن مجید کی ترکیب ہے. حروف سے مل کر کلمات بنے‘ کلمات نے آیات کی شکل اختیار کی‘ آیات جمع ہوئیں سورتوں کی شکل میں اورسورتیں جمع ہو گئیں منزلوں کی شکل میں.