سورۃ آل عمران کی آیت ۷ ملاحظہ کیجیے! ارشاد ہوا: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ ’’وہی ہے (اللہ) جس نے (اے محمدﷺ ) آپ پر کتاب نازل کی ‘اس میں سے کچھ آیاتِ محکمات ہیں‘ وہی کتاب کی جڑ بنیاد ہیں اور دوسری متشابہ ہیں ‘‘. اس آیت میں لفظ کتاب دو دفعہ آیا ہے‘ دونوں کے مفہوم میں باریک سا فرق ہے. متشابہ ان معانی میں کہ ان کے اصل مفہوم کو سمجھنے میں اشتباہ ہو جاتا ہے‘ وہ آیاتِ متشابہات ہیں. آگے فرمایا: فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ ’’تو وہ لوگ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہ آیات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں(ان ہی پر غور و فکر اور ان ہی میں کھوج کرید میں لگے رہتے ہیں) اُن کی نیت ہی فتنہ اٹھانے کی ہے‘ اور وہ بھی ہیں جو اُس کا اصل مفہوم جاننا چاہتے ہیں‘‘. وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘ ’’حالانکہ اس کے حقیقی معانی و مراد اللہ ہی جانتا ہے‘‘. وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ ’’البتہ جولوگ علم میں پختگی کے حامل ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان رکھتے ہیں اس پوری کتاب پر (محکمات پر بھی اور متشابہات پر بھی) ‘یہ سب ہمارے ربّ کی طرف سے ہے‘‘. وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۷﴾ ’’لیکن نصیحت نہیں حاصل کرتے مگر وہی جو ہوش مند ہیں‘‘. اللہ تعالیٰ ہمیں ان عقلمندوں اور ہوش مندوں میں شامل کرے‘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ میں ہمارا شمار ہو!
محکم اور متشابہ سے مراد کیا ہے؟ جان لیجیے کہ ’’محکم قطعی‘‘ یعنی وہ محکم جن کے قطعی ہونے میں نہ پہلے کوئی شبہ ہو سکتا تھا نہ اَب ہے ‘ نہ آئندہ ہو گا‘ وہ تو قرآن حکیم کے اوامر و نواہی ہیں. یعنی یہ کرو ‘یہ نہ کرو‘ یہ حلال ہے ‘یہ حرام ہے ‘ یہ جائز ہے‘یہ ناجائز ہے‘ یہ پسندیدہ ہے‘ یہ ناپسندیدہ ہے‘ یہ اللہ کو پسند ہے اور یہ اللہ کو ناپسند ہے!
قرآن حکیم کا عملی حصہ درحقیقت محکمات ہی پر مشتمل ہے. یہی وجہ ہے کہ اس آیت میں کتاب کا لفظ دو مرتبہ آیا ہے. پہلے بحیثیت مجموعی پورے قرآن کے لیے فرمایا: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَقرآن مجیدکا جو حصہ عملی ہدایات پر مشتمل ہے اس کے لیے بھی لفظ ’’کتاب‘‘ مخصوص ہے. چنانچہ دوسری مرتبہ جو لفظ کتاب آیا ہے ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وہ اسی مفہوم میں ہے. جہاں کوئی شے واجب کی جاتی ہے وہاں ’’کُتِبَ‘‘ کا لفظ آتا ہے. جیسے کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِتَالُ ... کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ ... کُتِبَ عَلَیۡکُمۡ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ نماز کے بارے میں فرمایا: اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا ﴿۱۰۳﴾یہاں کتاب سے مراد وہ حکم ہے جو دیا گیا ہے‘ تو اِن معانی میں ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ سے مراد قانون‘ شریعت‘ عملی ہدایات‘ اوامر و نواہی ہیں اور اصل میں وہی محکمات ہیں.
دائمی متشابہات عالَمِ غیب اور اس کے ضمن میں عالمِ برزخ ‘ عالمِ آخرت‘ عالمِ ارواح ‘ ملائکہ کا عالَم اور عالمِ امثال وغیرہ ہیں. یہ درحقیقت وہ دائرہ ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے اور اس کی حقیقتوں کو کماحقہ ٗ اس زندگی میں سمجھنا محال اور ناممکن ہے. لیکن ان کاایک علم دیا جانا ضروری تھا. مابعد الطبیعیات ایمانیات کے لیے ضروری ہے کہ اس سب کا ایک اجمالی خاکہ سامنے ہو. ہر انسان نے مرنا ہے‘ مرنے کے فوراً بعد عالمِ برزخ میں یہ کچھ ہونا ہے‘ بعث بعد الموت ہے‘حشر نشر ہے‘ حساب کتاب ہے‘ جنت و دوزخ ہے. ان حقیقتوں کا اجمالی علم موجود نہ ہو تو بنیادی ضرورت کے طور پر انسان کو جو فلسفہ درکار ہے وہ اس کو فراہم نہیں ہو گا.لیکن اِن کی حقیقتوں تک رسائی اس زندگی میں رہتے ہوئے ہمارے لیے ممکن نہیں‘ لہذا ان کا جو علم دیا گیا ہے وہ آیاتِ متشابہات ہیں‘ اور وہ دائماً متشابہات ہی رہیں گی. ہاں جب اُس عالم میں آنکھ کھلے گی تو اصل حقیقت معلوم ہو گی‘ یہاں معلوم نہیں ہو سکتی.
البتہ متشابہات کا ایک دوسرا دائرہ ہے جو تدریجاً متشابہات سے محکمات کی طرف آرہا ہے. وہ دائرہ مظاہر طبیعی (physical phenomena) سے متعلق ہے. آج سے ہزار سال پہلے اس کا دائرہ بہت وسیع تھا‘ آج یہ کچھ محدود ہوا ہے‘ لیکن اب بھی بہت سے حقائق ہم نہیں جانتے. سات آسمانوں کی حقیقت آج تک ہمیں معلوم نہیں ہے. ہو سکتا ہے کچھ آگے چل کر ہمارا میٹیریل سائنسز کا علم اس حد تک پہنچ جائے کہ معلوم ہو کہ یہ ہے وہ بات جو قرآن نے سات آسمانوں سے متعلق کہی تھی ‘لیکن اِس وقت یہ ہمارے لیے متشابہات میں سے ہے.اسی طرح ایک آیت کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۴۰﴾ (یٰسٓ) (ہر شے اپنے مدار میں تیر رہی ہے) اس کو پہلے انسان نہیں سمجھ سکتا تھا‘ لیکن آج یہ حقیقت محکم ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ ؏
’’لہو خورشید کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں!‘‘
اگر آپ نظامِ شمسی کو دیکھیں تو ہر چیز حرکت میں ہے. کہکشاں کو دیکھیں تو ہر شے حرکت میں ہے. کہکشائیں ایک دوسرے سے دُوربھاگ رہی ہیں‘ فاصلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے. ایک ذرے (atom) کا مشاہدہ کریں تو اس میں الیکٹرون اور پروٹون حرکت میں ہیں. گویا ہر شے حرکت میں ہے.آج سے کچھ عرصہ قبل یہ بات متشابہات میں تھی‘ آج وہ محکمات کے دائرے میں آ گئی ہے. چنانچہ بہت سے وہ سائنسی حقائق جو ابھی تک انسان کو معلوم نہیں ہیں اور ان کے حوالے قرآن میں ہیں ‘ وہ آج کے اعتبار سے تو متشابہات میں شمار ہوں گے لیکن انسان کا فزیکل سائنسز کا علم آگے بڑھے گا تو وہ تدریجاً متشابہات کے دائرے سے نکل کر محکمات کے دائرے میں آ جائیں گے.