۴)تاویلِ عام او ر تاویلِ خاص

قرآن حکیم کی کسی ایک آیت یا چند آیات کے مجموعے یا کسی خاص مضمون جو چند آیات میں مکمل ہو رہا ہے‘ پر غور کرنے میں دو مرحلے ہمیشہ پیش نظر رہنے چاہئیں: ایک تاویل خاص‘ دوسرے تاویل عام. اس سلسلہ میں یاد رہے کہ قرآن حکیم زمان و مکان کے ایک خاص تناظر میں نازل ہوا ہے. اس کا زمانۂ نزول ۶۱۰ء سے ۶۳۲ء کے عرصے پر محیط ہے اور اس کے نزول کی جگہ سرزمین حجاز ہے. اس کا ایک خاص پس منظر ہے. ظاہر بات ہے کہ اگر اُس وقت اور اُس علاقے کے لوگوں کے عقائد و نظریات اور ان کی ذہنی سطح کو ملحوظ نہ رکھا جاتا تو ان تک ابلاغ ممکن ہی نہیں تھا. وہ تو اُمّی تھے‘ پڑھے لکھے نہ تھے. اگر انہیں فلسفہ پڑھانا شروع کر دیا جاتا‘ سائنسی علوم کے بارے میں بتایا جاتا تو یہ باتیں اُن کے سروں کے اوپر سے گزر جاتیں. قرآنی آیات تو ان کے دل و دماغ میں پیوست ہو گئیں‘ کیونکہ براہِ راست ابلاغ تھا‘ کوئی barrier موجود نہیں تھا. تو قرآن حکیم کا یہ شانِ نزول ذہن میں رکھیے. ویسے تو ’’شانِ نزول‘‘ کی اصطلاح کسی خاص آیت کے لیے استعمال ہوتی ہے‘ لیکن ایک خاص time and space complex میں قرآن حکیم کا ایک مجموعی شانِ نزول ہے جس میں یہ نازل ہوا. وہاں کے حالات ‘اس عرصے کے واقعات‘ ان حالات میں تدریجاً جو تبدیلی ہوئی‘ پھر کون لوگ اس کے مخاطب تھے‘ مکّے والوں کے عقائد‘ ان کی رسمیں ریتیں‘ ان کے نظریات ‘ان کے مسلّمات‘ ان کی دلچسپیاں… جب قرآن کو اس سیاق و سباق (context) میں رکھ کر غور کریں گے تو یہ تاویل خاص ہو گی. اسی میں آپ مزید تفصیل میں جائیں گے کہ فلاں آیت کا واقعاتی پس منظر کیا ہے. یعنی قرآن مجید کی کسی آیت یا چند آیات پر غور کرتے ہوئے اوّلاً اس کو اس کے context میں رکھ کر غور کرنا کہ جب یہ آیات نازل ہوئیں اس وقت لوگوں نے ان کا مفہوم کیا سمجھا‘ یہ تاویل خاص ہو گی . البتہ قرآن مجید چونکہ نوعِ انسانی کی ابدی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے‘ صرف خاص علاقے اور خاص زمانے کے لوگوں کے لیے تو نازل نہیں ہوا‘ لہذا اس میں ابدی ہدایت ہے ‘اس اعتبار سے تاویل عام کرنا ہو گی.

تاویل عام کے اعتبار سے الفاظ پر غور کریں گے کہ الفاظ کیا استعمال ہوئے ہیں. یہ الفاظ جب ترکیبوں کی شکل اختیار کرتے ہیں تو کیا ترکیبیں بنتی ہیں. پھر آیات کا باہمی ربط کیا ہے‘ سیاق و سباق کیا ہے؟ یہ آیات جس سورۃ میں آئیں اس کا عمود کیا ہے‘ اس سورۃ کا جوڑا کون سا ہے‘یہ سورۃ کس سلسلۂ سُوَر کا حصہ ہے. پھر وہ سورتیں مکّی اور مدنی کون سے گروپ میں شامل ہیں‘ ان کا مرکزی مضمون کیا ہے؟ اس پس منظر میں ایک سیاق و سباق متن 
(text) کا ہو گا‘ جس سے ہمیں تاویلِ عام معلوم ہو گی اور ایک سیاق و سباق واقعات کا ہو گا‘ جس سے ہمیں ان آیات کی تاویلِ خاص معلوم ہو گی.

اگر ہم قرآن مجید کی موجودہ ترتیب کے اعتبار سے آیات پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ جس ترتیب سے اِس وقت قرآن مجید موجود ہے اصل حجت یہی ہے‘ یہی اصل ترتیب ہے‘ یہی لوحِ محفوظ کی ترتیب ہے. تاویل عام کے اعتبا ر سے ایک اصولی بات یاد رکھیں: الاعتبار لعموم اللفظ لا لخصوص السبب. یعنی اصل اعتبار الفاظ کے عموم کا ہو گانہ کہ خاص شانِ نزول کا . دیکھا جائے گا کہ جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان کا مفہوم و معنی‘ نیز مدلول کیا ہے.کلامِ عرب سے دلائل لائے جائیں گے کہ وہ انہیں کن معانی میں استعمال کرتے تھے .اُس لفظ کے عموم کا اعتبار ہو گا نہ کہ اُس کے شانِ نزول کا.لیکن اس کا یہ معنی بھی نہیں کہ اسے بالکل نظرانداز کر دیا جائے. سب سے مناسب بات یہی ہو گی کہ پہلے اس کی تاویل خاص پر غور کریں اور پھر اس کے ابدی سرچشمہ ٔ ہدایت ہونے کے ناطے اس کے عموم پر غور کریں. اس اعتبار سے تاویل خاص اور تاویل عام کے فرق کو ذہن میں رکھیں.