تذکر اور تدبر دونوں الفاظ الگ الگ تو بہت جگہ آئے ہیں‘ سورۃ صٓ کی آیت ۲۹ میں یکجا آ گئے ہیں: کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۲۹﴾ ’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیؐ ) ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں‘‘. ان دونوں کا مطلب کیا ہے؟ ایک ہے قرآن مجید سے ہدایت اخذ کر لینا‘ نصیحت حاصل کر لینا‘ اصل راہ نمائی حاصل کرلینا‘ جس کو کہ مولانا روم نے کہا ؏ ’’ماز قرآں مغز ہا برداشتیم‘‘ یعنی قرآن کا جو اصل مغز ہے وہ تو ہم نے لے لیا. اس کا اصل مغز ’’ہدایت‘‘ ہے. اس مرحلے پر قرآن جو لفظ استعمال کرتا ہے وہ ’’تذکر‘‘ ہے. یہ لفظ ذکر سے بنا ہے. تذکر یاددہانی کو کہتے ہیں. اب اس کا تعلق اسی بات سے جڑ جائے گا جو قرآن کے اسلوبِ استدلال کے ضمن میں پہلے بیان کی جا چکی ہے. یعنی قرآن مجید جن اصل حقائق (مابعد الطبیعیا تی حقیقتوں) کی طرف راہنمائی کرتا ہے وہ فطرتِ انسانی میں مضمر ہیں‘ ان پر صرف ذہول اور نسیان کے پردے پڑ گئے ہیں.

مثلاً آپ کو کوئی بات کچھ عرصہ قبل معلوم تھی ‘لیکن اب اس کی طرف دھیان نہیں رہا اور وہ آپ کی یادداشت کے ذخیرے میں گہری اتر گئی ہے اور اب یاد نہیں آتی‘لیکن کسی روز اُس کی طرف کوئی ہلکا سا اشارہ ملتے ہی آپ کو وہ پوری بات یاد آ جاتی ہے. جیسے آپ کا کوئی دوست تھا‘ کسی زمانے میں بے تکلفی تھی‘ صبح شام ملاقاتیں تھیں ‘اب طویل عرصہ ہو گیا‘ کبھی اس کی یاد نہیں آئی. ایسا نہیں کہ آپ کو یاد نہیں رہا‘بلکہ ذہول ہے‘ نسیان ہے‘ توجہ اُدھر نہیں ہے‘کبھی ذہن اُدھر منتقل ہی نہیں ہوتا. لیکن اچانک کسی روز آپ نے اپنا ٹرنک کھولا اور اس میں سے کوئی قلم یا رومال جو اُس نے کبھی دیا ہو برآمد ہو گیا تو فوراً آپ کو اپنا وہ دوست یاد آ جائے گا. یہ phenomenon تذکر ہے. تذکر کا مطلب تعلّم نہیں ہے. تعلّم علم حاصل کرنا یعنی نئی بات جاننا ہے‘ جبکہ تذکر پہلے سے حاصل شدہ علم جس پر ذہول اور نسیان کے جو پردے پڑ گئے تھے ‘ان کو ہٹا کر اندر سے اسے برآمد کرنا ہے. فطرتِ انسانی کے اندر اللہ کی محبت‘ اللہ کی معرفت کے حقائق مضمر ہیں.یہ فطرت میں موجود ہیں ‘صرف اُن پر پردے پڑ گئے ہیں‘ دنیا کی محبت غالب آ گئی ہے. ؎

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے!
(فیضؔ)

یہاں کی دلچسپیوں‘ مسائل‘ مشکلات‘ مصروفیات‘ مشاغل کی وجہ سے ذہول ہو گیا ہے‘ پردہ پڑ گیا ہے. تذکر یہ ہے کہ اس پردے کو ہٹا دیا جائے. ؏ 

سرکشی نے کر دیے دھندلے نقوشِ بندگی
آئو سجدے میں گریں‘ لوحِ جبیں تازہ کریں!

(حفیظؔ)
یادداشت کو 
recall کرنا اور اپنی فطرت میں مضمر حقائق کو اجاگر کر لینا تذکر ہے. قرآن کا اصل ہدف یہی ہے اور اس اعتبار سے قرآن کا دعویٰ سورۃ القمر میں چار مرتبہ آیا ہے: وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ ﴿﴾ ’’ہم نے قرآن کو تذکر کے لیے بہت آسان بنا دیا ہے‘ تو کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟‘‘ اس کے لیے بہت گہرائی میں غوطہ زنی کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ بہت مشقت و محنت مطلوب نہیں ہے. انسان کے اندر طلبِ حقیقت ہو اور قرآن سے براہِ راست رابطہ (Communication) ہو جائے تو تذکر حاصل ہو جائے گا .اس کی شرط صرف ایک ہے اوروہ یہ کہ انسان کو اتنی عربی ضرور آتی ہو کہ وہ قرآن سے ہم کلام ہو جائے.اگر آپ ترجمہ دیکھیں گے تو کچھ معلومات توحاصل ہوں گی ‘تذکر نہیں ہو گا. اقبال نے کہا تھا: ؎

ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف !

تذکر کے عمل کا اثر تو یہ ہے کہ آپ کے اندر کے مضمر حقائق ابھر کر آپ کے شعور کی سطح پر دوبارہ آ جائیں. یہ نہ ہو کہ پہلے آپ نے متن کو پڑھا ‘پھرترجمہ دیکھا‘ حاشیہ دیکھا‘ اس کے بعد اگلی آیت کی طرف گئے تو تسلسل ٹوٹ گیا اور کلام کی تأثیر ختم ہو گئی. ترجمہ سے کلام کی اصل تأثیر باقی نہیں رہتی. شیکسپئر کی کوئی عبارت آپ انگریزی میں پڑھیں گے تو جھوم جائیں گے‘ اگر اس کا ترجمہ کریں گے تو اس کا وہ اثر نہیں ہو گا.اسی طرح غالبؔ کا شعر ہو یا میرؔ کا ‘اس کا انگریزی میں ترجمہ کریں گے تو وہ اثر باقی نہیں رہے گا اور آپ وجد میں نہیں آئیں گے‘ جھوم جھوم نہیں جائیں گے. عربی زبان کا اتنا علم کہ آپ عربی متن کو براہ راست سمجھ سکیں‘ تذکر کی بنیادی شرط ہے. چنانچہ اوّلاً حسنِ نیت ہو‘ طلبِ ہدایت ہو‘ تعصب کی پٹی نہ بندھی ہو‘ اور ثانیاً عربی زبان کا اتنا علم ہو کہ آپ براہِ راست اس سے ہم کلام ہو رہے ہوں‘ یہ دونوں شرطیں پوری ہو جائیں تو تذکر ہو جائے گا.

دوبارہ ذہن میں تازہ کر لیجیے کہ آیت کا مطلب نشانی ہے. نشانی اسے کہتے ہیں جس کو دیکھ کر ذہن کسی اور شے کی طرف منتقل ہو جائے. آپ نے قلم یا رومال دیکھا تو ذہن دوست کی طرف منتقل ہو گیا جس سے ملے ہوئے بہت عرصہ ہو گیا تھا اور اس کا کبھی خیال ہی نہیں آیا تھا. مولانا روم کہتے ہیں ؎ 

خشک تار و خشک مغز و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست؟ 

ہمارا ایک ازلی دوست ہے ’’اللہ‘‘ وہی ہمارا خالق ہے‘ ہمارا باری ہے‘ ہمارا ربّ ہے.اس کی دوستی پر کچھ پردے پڑ گئے ہیں ‘اس پر کچھ ذہول طاری ہو گیا ہے. قرآن اس دوست کی یاد دلانے کے لیے آیا ہے.

اس کے برعکس تدبر گہرائی میں غوطہ زن ہونے کو کہتے ہیں . ؏ ’’قرآن میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں!‘‘ تدبر کے اعتبار سے قرآن حکیم مشکل ترین کتاب ہے. اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ کہ اس کا منبع اور سرچشمہ علمِ الٰہی ہے اور علمِ الٰہی لامتناہی ہے. یہ حقیقت ہے کہ کلام میں متکلم کی ساری صفات موجود ہوتی ہیں‘ لہذا یہ کلام لامتناہی ہے. اس کو کوئی شخص نہ عبور کر سکتا ہے نہ گہرائی میں اس کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے.یہ ناممکن ہے ‘چاہے پوری پوری زندگیاں کھپا لیں. وہ چاہے صاحبِ کشاف ہوں ‘ صاحبِ تفسیر کبیر ہوں‘

کسے باشد. اس کا احاطہ کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں. بعض لوگ غیرمحتاط انداز میں یہ الفاظ استعمال کر دیتے ہیں کہ ’’انہیں قرآن پر بڑا عبور حاصل ہے.‘‘ یہ قرآن کے لیے بڑاتوہین آمیز کلمہ ہے.عبور ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک پہنچ جانے کو کہتے ہیں. قرآن کا تو کنارہ ہی کوئی نہیں ہے. کسی انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ قرآن پر عبور حاصل کرے. یہ ناممکنات میں سے ہے. اسی طرح اس کی گہرائی تک پہنچ جانا بھی ناممکن ہے.

اس سلسلہ میں ایک تمثیل سے بات کسی قدر واضح ہو جائے گی. کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ سمندر میں کوئی ٹینکر تیل لے کر جا رہا ہے اور کسی وجہ سے اچانک تیل لیک کرنے لگ جاتا ہے. لیکن وہ تیل سطح سمندر کے اوپر ہی رہتا ہے ‘نیچے نہیں جاتا. سطح سمندر پر اوپر تیل کی تہہ اور نیچے پانی ہوتا ہے اور وہ تیل پانچ دس میل تک پھیل جاتا ہے . سمندر کی اتھاہ گہرائی کے باوجود تیل سطح آب پر ہی رہتا ہے. اسی طرح سمجھئے کہ قرآن مجید کی اصل ہدایت اور اصل تذکر اس کی سطح پر موجود ہے.

اس تک رسائی کے لیے سائنس دان یا فلسفی ہونا‘ عربی ادب کا ماہر ہونا‘ کلامِ جاہلی کا عالم ہونا ضروری نہیں. صرف دو چیزیں موجود ہوں. پہلی خلوصِ نیت اور طلب ہدایت‘ دوسری قرآن سے براہِ راست ہم کلامی کا شرف اور اس کی صلاحیت. یہ دونوں ہیں تو تذکر کا تقاضا پورا ہو جائے گا. البتہ تدبر کے لیے گہرائی میں اترنا ہو گا اور اس بحرِ زخّار میں غوطہ زنی کرنا ہو گی. تدبر کا حق ادا کرنے کے لیے شعرِ جاہلی کو بھی جاننا ضروری ہے. ہر لفظ کی پہچان ضروری ہے کہ جس دور میں قرآن نازل ہوا اُس زمانے اور اُس علاقے کے لوگوں میں اس لفظ کا مفہوم کیا تھا‘ یہ کن معانی میں استعمال ہو رہا تھا. قرآن نے بنیادی اصطلاحات وہیں سے اخذ کی ہیں. وہی الفاظ جن کو عرب اپنے اشعار اور خطبات کے اندر استعمال کرتے تھے انہی کو قرآن مجید نے لیا ہے. چنانچہ نزولِ قرآن کے دَور کی زبان کو پہچاننا اور اس کے لیے ضروری مہارت کا ہونا تدبر کے لیے ناگزیر ہے. پھر یہ کہ احادیث‘ علمِ بیان‘ منطق ‘ان سب کو انسان بطریقِ تدبر جانے گا تو پھر وہ اس کاحق ادا کر سکے گا. 

مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر کا نام ہی ’’تدبر قرآن‘‘ رکھا ہے اور وہ تدبر قرآن کے بہت بڑے داعی ہیں. اس کے لیے انہوں نے اپنی زندگی میں بہت محنت کی ہے.ان کے بعض شاگرد حضرات نے بھی محنتیں کی ہیں اور وقت لگایا ہے. اس کے ان تقاضوں کو تو اُن حضرات نے بیان کیا ہے ‘لیکن تدبر قرآن کا ایک اور تقاضا بھی ہے جو بدقسمتی سے ان کے سامنے بھی نہیں آیا. اگر وہ تقاضا بھی پورا نہیں ہو گا تو عصر حاضر کے تدبر کا حق ادا نہیں ہو گا. وہ تقاضا یہ ہے کہ علم انسانی آج جس لیول تک پہنچ گیا ہے‘ میٹیریل سائنسز کے مختلف علوم کے ضمن میں جو کچھ معلومات انسان کوحاصل ہوچکی ہیں اور وہ خیالات و نظریات جن کو آج دنیا میں مانا جا رہا ہے ان سے آگاہی حاصل کی جائے. اگر ان کا اجمالی علم نہیں ہے تو اِس دَور کے تدبر قرآن کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا.

قرآن حکیم وہ کتاب ہے جو ہر دَور کے اُفق پر خورشیدِ تازہ کی مانند طلوع ہو گی. آج سے سو برس پہلے کے قرآن اور آج کے قرآن میں اس حوالے سے فرق ہو گا. متن اور الفاظ وہی ہیں ‘لیکن آج علم انسانی کی جو سطح ہے اس پر اس قرآن کے فہم اور اس کے علم کو جس طریقے سے جلوہ گر ہونا چاہیے اگر آپ اس کا حق ادانہیں کر رہے تو آپ سو برس پہلے کا قرآن پڑھا رہے ہیں‘ آج کا قرآن نہیں پڑھارہے. جیسے اللہ کی شان ہے کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ اسی طرح کا معاملہ قرآن حکیم کا بھی ہے.

اسی طرح ہدایتِ عملی کے ضمن میں اقتصادیات‘ سماجیات اور نفسیاتِ انسانی کے سلسلہ میں راہنمائی اور حقائق قرآن میں موجود ہیں‘ انہیں کیسے سمجھیں گے؟ قرآن کی اصل تعلیمات کی قدر و قیمت اور اس کی اصل evaluation کیسے ممکن ہے اگر انسان آج کے اقتصادی مسائل کو نہ جانتا ہو؟اس کے بغیر وہ تدبر قرآن کا حق نہیں ادا کر سکتا.مثلاً آج کے اقتصادی مسائل کیا ہیں؟ پیپر کرنسی کی حقیقت کیا ہے؟ اقتصادیات کے اصول و مبادی کیا ہیں؟بینکنگ کی اصل بنیاد کیا ہے؟ کس طرح کچھ لوگوں نے اس پوری نوعِ انسانی کو معاشی اعتبار سے بے بس کیا ہوا ہے. اس حقیقت کو جب تک نہیں سمجھیں گے تو آج کے دَور میں قرآن حکیم کی اقتصادی تعلیمات واضح کرنے کا حق ادانہیں ہو سکتا. 

واقعہ یہ ہے کہ آج تدبر قرآن کسی ایک انسان کے بس کا روگ ہی نہیں رہا‘ اس کے لیے تو ایک جماعت درکار ہے. میرے کتابچے ’’مسلمانوں پرقرآن مجید کے حقوق‘‘ کے باب ’’تذکر و تدبر‘‘ میں یہ تصور پیش کیا گیا ہے کہ ایسی یونیورسٹیز قائم ہوں جن کا اصل مرکزی شعبہ ’’تدبر قرآن‘‘ کا ہو. جو شخص بھی اس یونیورسٹی کا طالب علم ہو‘ وہ عربی زبان سیکھے اورقرآن پڑھے. لیکن اس مرکزی شعبے کے گرد تمام علومِ عقلی‘ جیسے منطق‘ مابعد الطبیعیات‘ اخلاقیات‘ نفسیات اور الٰہیات‘ علومِ عمرانی جیسے معاشیات‘ سیاسیات اور قانون ‘اور علومِ طبعی‘ جیسے ریاضی ‘ کیمیا‘ طبیعیات‘ ارضیات اور فلکیات وغیرہ کے شعبوں کا ایک حصار قائم ہو‘ اور ہر ایک طالب علم ’’تدبر قرآن‘‘ کی لازماً اور ایک یا اس سے زائددوسرے علوم کی اپنے ذوق کے مطابق تحصیل کرے اور اس طرح ان شعبہ ہائے علوم میں قرآن کے علم و ہدایت کو تحقیقی طور پر اخذ کر کے مؤثر انداز میں پیش کر سکے. طالب علم وہ بھی پڑھے تب معلوم ہو گا کہ اس شعبے میں انسان آج کہاں کھڑا ہے اور قرآن کیا کہہ رہاہے. فلاں شعبے میں نوعِ انسانی کے کیا مسائل ہیں اور اس ضمن میں قرآن حکیم کیاکہتاہے. مختلف شعبے مل کر تدبر قرآن کی ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں جو وقت کا اہم تقاضا ہے. 

جیسا کہ میں نے عرض کیا‘تذکر کے اعتبار سے قرآن آسان ترین کتاب ہے جو ہماری فطرت کی پکار ہے. ؏ ’’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ ہی میرے دل میں تھا!‘‘ اگر انسان کی فطرت مسخ شدہ نہیں ہے ‘بلکہ سلیم ہے‘ صالح ہے‘ سلامتی پر قائم ہے تو وہ قرآن کو اپنے دل کی پکار محسوس کرے گا‘ اس کے اور قرآن کے درمیان کوئی حجاب نہ ہو گا‘ وہ اسے اپنے دل کی بات سمجھے گا‘ اس کے لیے عربی زبان کا صرف اتنا علم کافی ہے کہ براہِ راست ہم کلام ہو جائے.جبکہ تدبر کے تقاضے پورے کرنے کسی ایک انسان کے بس کا روگ نہیں ہے. جو شخص بھی اس میدان میں قدم رکھنا چاہے اس کے ذہن میں ایک اجمالی خاکہ ضرور ہونا چاہیے کہ آج جدید سائنسز کے اعتبار سے انسان کہاں کھڑا ہے. جب انسان کو اپنے مقام کی معرفت حاصل ہو جائے تو وہ قرآن مجید سے بہتر طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے. اس کی مثال ایسے ہے کہ سمندر میں تو بے تحاشا پانی ہے ‘آپ اگر پانی لینا چاہتے ہیں تو جتنا بڑا کٹورا‘ کوئی دیگ‘ دیگچی یا بالٹی آپ کے پاس ہے اسی کو آپ بھر لیں گے. یعنی جتنا آپ کا ظرف ہو گا اتنا ہی آپ سمندر سے پانی اخذ کر سکیں گے. اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہ ہو گا کہ سمندر میں پانی ہی اتنا ہے! انسانی ذہن کا ظرف علوم سے بنتا ہے. یہ ظرف آج سے پہلے بہت تنگ تھا. ایک ہزار سال پہلے کا ظرفِ ذہنی بہت محدود تھا. انسانی علوم کے اعتبار سے آج کا ظرف بہت وسیع ہے. اگر آج آپ کو قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنی ہے تو آپ کو اپنا ظرف اس کے مطابق وسیع کرنا ہوگا.اور اگر کچھ لوگ ابھی اُسی سابق دور میں رہ رہے ہیں تو قرآن حکیم کے مخفی حقائق اُن پر منکشف نہیں ہوں گے.