عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ : اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ قُلْتُ مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَا رَسُوْلَ اللہِ ﷺ ؟ قَالَ : کِتَابُ اللہِ ‘ فِیْہِ نَبَاُ مَا قَبْلَکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَکُمْ‘ ھُوَ الْفَصْلُ لَیْسَ بِالْھَزْلِ‘ مَنْ تَرَکَہٗ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَہُ اللہُ ‘ وَمَنِ ابْتَغَی الْھُدٰی فِیْ غَیْرِہٖ اَضَلَّہُ اللہُ ‘ وَھُوَ حَبْلُ اللہِ الْمَتِیْنُ ‘ وَھُوَ الذِّکْرُِ الْحَکِیْمُ ‘ وَھُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ‘ ھُوَ الَّذِیْ لَا تَزِیْغُ بِہِ الْاَھْوَاءُ وَلَا تَلْتَبِسُ بِہِ الْاَلْسِنَۃُ وَلَا یَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ وَلَا یَخْلُقُ عَنْ کَثْرَۃِ الرَّدِّ وَلَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہٗ ‘ ھُوَ الَّذِیْ لَمْ تَنْتَہِ الْجِنُّ اِذْ سَمِعَتْہُ حَتّٰی قَالُوْا : اِنَّا سَمِعۡنَا قُرۡاٰنًا عَجَبًا ۙ﴿۱﴾یَّہۡدِیۡۤ اِلَی الرُّشۡدِ فَاٰمَنَّا بِہٖ ؕ مَنْ قَالَ بِہٖ صَدَقَ‘ وَمَنْ عَمِلَ بِہٖ اُجِرَ‘ وَمَنْ حَکَمَ بِہٖ عَدَلَ‘ وَمَنْ دَعَا اِلَیْہِ ھُدِیَ اِلٰی صِرَاط مُسْتَقِیْمٍ (رواہ الترمذی والدارمی)
نوٹ: یہ حدیث مبارکہ طبرانی ؒ کی معجم کبیر میں ا س طرز سے آئی ہے کہ : حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نبی اکرمﷺ سے دریافت کیا: ’’یَا مُحَمَّدَُ ﷺ ! اُمَّتَکَ بَعْدَکَ؟‘‘ یعنی اے محمدﷺ آپ کے بعد آپ کی اُمّت کا کیا بنے گا؟‘‘ جس پر آنحضورﷺ نے فرمایا: ’’مَا الْمَخْرَجُ یَا جِبْرَئِیْلُ؟‘‘ اس کے جواب میں جو کچھ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا وہ وہی ہے جو مندرجہ بالا حدیث کے مطابق نبی اکرمﷺ نے فرمایا! (ترجمہ) حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا‘ آپؐ نے ایک دن فرمایا: ’’آگاہ ہو جاؤ ‘ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے! ‘‘میں نے عرض کیا: یارسول اللہ ! اس فتنہ کے شر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟
آپؐ نے فرمایا: ’’کتاب اللہ! اس میں تم سے پہلی اُمتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں (یعنی اعمال و اخلاق کے جو دُنیوی و اُخروی نتائج و ثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں‘ قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے!) اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں قرآن میں اُن کا حکم اور فیصلہ موجود ہے. (حق وباطل اور صحیح و غلط کے بارے میں) وہ قولِ فیصل ہے‘ وہ فضول بات اور یاوہ گوئی نہیں ہے .جو کوئی جابر و سرکش اس کو چھوڑے گا
(یعنی غرور و سرکشی کی راہ سے قرآن سے مُنہ موڑے گا!) اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا ‘اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی (یعنی وہ ہدایتِ حق سے محروم رہے گا!) قرآن ہی حبل اللہ المتین (یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ )ہے! اور محکم نصیحت نامہ ہے ‘ اور وہی صراط مستقیم ہے‘ وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں‘ اور زبانیں اس کو گڑبڑ نہیں کر سکتیں (یعنی جس طرح اگلی کتابوں میں زبانوں کی راہ سے تحریف داخل ہو گئی اور محرفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کر دیا اس طرح قرآن میں کوئی تحریف نہیں ہو سکے گی.
اللہ تعالیٰ نے تاقیامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرما دیا ہے!) اور علم والے کبھی اس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے (یعنی قرآن میں تدبرکاعمل اور اس کے حقائق و معارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ جاری رہے گااور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کر لیا اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں رہا. بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہے گا کہ وہ علمِ قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہیں گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کا احساس یہ ہو گا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے وہ اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ‘ جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہوا ہے) اور وہ (قرآن)
کثرتِ مزاولت سے کبھی پرانا نہیں ہو گا(یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد اُن کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا‘ قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے‘ وہ جتنا پڑھا جائے گا اور جتنا اس میں تفکر و تدبر کیا جائے گا اتنا ہی اس کے لطف و لذت میں اضافہ ہو گا!) اور اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق و لطیف حقائق و معارف) کبھی ختم نہیں ہو ں گے. قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنوں نے اس کو سنا تو بے اختیار بول اٹھے: ’’ہم نے قرآن سنا جو عجیب ہے‘ رہنمائی کرتا ہے بھلائی کی‘ پس ہم اس پر ایمان لے آئے‘‘.جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی‘ اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ مستحق اجر و ثواب ہوا .اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل و انصاف کیا ‘ اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی!‘‘