تقریر نمبر ۱۱: سورۂ یونس و سورۂ ہود

قرآن حکیم میں گیارہویں پارے میں سورۂ یونس سے لے کر اٹھارہویں پارے میں سورۃ المؤمنون تک ۱۴ مکی سورتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس میں مضامین اور ربط کلام کے اعتبار سے اکثر سورتیں تو جوڑوں کی شکل میں ہیں لیکن بعض بالکل منفرد مزاج کی حامل ہیں‘ اگرچہ یہ بھی ثانوی اعتبار سے کسی جوڑے ہی کے ساتھ منسلک ہیں. اس طرح بنظر غائر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بڑے گروپ میں تین تین سورتوں پرمشتمل چھوٹے گروپ تشکیل پا گئے ہیں‘ جن میں مضامین کی بڑی مناسبت و مشابہت پائی جاتی ہے.

ان میں سے پہلا گروپ سورۂ یونس‘سورۂ ہود اور سورۂ یوسف پر مشتمل ہے‘ جن میں سے سورۂ یونس اور سورۂ ہود میں تو بعینہٖ وہی نسبت ِباہمی پائی جاتی ہے جو ہم اس سے قبل سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف میں دیکھ چکے ہیں. البتہ سورۂ یوسف بالکل منفرد سورت ہے ‘جس میں از اوّل تا آخر صرف ایک نبی یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کے حالات و واقعات تفصیلاً بیان ہوئے (اس کی ایک ہی اور مثال پورے قرآن میں سورۂ طٰـہٰ کی ہے ‘جس میں اسی طرح از ابتدا تا انتہا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات و واقعات کا ذکر ہے). سورۂ یونس اور سورۂ ھود دونوں مکی دَور کے اواخر میں نازل ہوئیں اور غالباً سورۂ ھود‘سورۂ یونس سے قبل نازل ہوئی. ان دونوں اور بالخصوص سورۂ ھود کے مضامین کا انداز ایسا ہے جیسے عذابِ الٰہی آیا چاہتا ہو اور ہلاکت اور بربادی کے سیلاب کا بند بس ٹوٹنے والا ہو. یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آتا ہے کہ ان سورتوں کے نزول کے زمانے میں آنحضور صدمے کے باعث بوڑھے نظر آنے لگے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے استفسار پر آپؐ نے فرمایا بھی کہ: شَیَّــبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَاَخَوَاتُھَا (۱’’مجھے سورۂ ھود اور اس کی ہم مضمون سورتوں نے بوڑھا کر دیا ہے.‘‘

سورۂ یونس اور سورۂ ھود کے مابین ‘جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا‘وہی نسبت ہے جو سورۃ الانعام اور سورۃ الاعراف میں ہے کہ ایک میں ’’تذکیر بآلاء اللّٰہ‘‘ پر زیادہ زور ہے اور دوسری میں ’’تذکیر بایّام اللّٰہ‘‘پر. چنانچہ سورۂ یونس کے گیارہ رکوعوں میں سے صرف دو میں قصص المرسلین کا ذکر ہے اور بقیہ پوری سورت میں آفاق و اَنفس کے دلائل اور فطرت کی بدیہی شہادتوں سے توحید‘معاد اور رسالت کو مبرہن کیا گیا ہے‘ جبکہ سورۂ ھود کے دس رکوعوں میں سے سات میں رسولوں کے حالات اور ان کی قوموں پر عذاب کی تفاصیل بیان ہوئی ہیں ‘اور صرف تین رکوعوں میں اصولی مباحث وارد ہوئے ہیں. جن رسولوں کا ذکر اِن دونوں سورتوں میں ہوا یہ وہی چھ ’’ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ‘‘ ہیں جن کا ذکر سورۃ الاعراف میں آ چکا ہے‘ یعنی حضراتِ نوح‘ ہود‘ صالح‘ لوط‘ شعیب وموسیٰ علیٰ نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام. ان کے علاوہ صرف ایک رسول یعنی حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر سورۂ یونس میں مزید آیا ہے‘ لیکن وہ بالکل ضمنی طور پر پھر سورۂ یونس اور سورۂ ھود کے مابین یہ عکسی ترتیب بھی بڑی دلچسپ ہے کہ سورۂ یونس میں ان چھ رسولوں میں سے آخری یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر نہایت مفصل ہوا اور پہلے یعنی حضرت نوح علیہ السلام کا مجملاً اور بقیہ چار کے صرف مجموعی ذکر پر اکتفا کیا گیا‘ جب کہ سورۂ ھود (۱) مشکوٰۃ المصابیح ‘ کتاب الرقاق‘ باب البکاء والخوف‘ الفصل الثانی‘بحوالہ الترمذی. سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی۲/۶۴۱ و ۶۴۲میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر بہت مفصل ہوا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نہایت مجمل‘اور بقیہ چار کے ذکر کے لیے بھی پورا پورا ایک رکوع وقف کیا گیا.

اولوالعزم رسولوں کے اس ذکر کی اصل اور نمایاں غرض تو ظاہر ہے کہ مشرکین عرب بالخصوص قریش مکہ کو اِنذار یعنی خبردار کرنا ہے کہ جس طرح تمہارے پاس ہمارے رسول حضرت محمدآئے ہیں اسی طرح ہم نے تمہارے ملک اور اس کے اطراف و جوانب میں سابق اقوام کے پاس بھی اپنے رسول علیہم السلام بھیجے تھے ‘اور جس طرح تم ان کا انکار کر رہے ہو اور بجائے ایمان کے کفر و اعراض کی روش اختیار کررہے ہو اسی طرح انہوں نے کیا تھا. تو تم جانتے ہی ہو کہ ان کو ہم نے کیسے نیست و نابود اور نسیاً منسیاً کر دیا تو اب خود غور کر لو کہ تم اپنے آپ کو کس انجام کا مستحق بنا رہے ہو!

دوسرا اہم پہلو اس میں آنحضور اور آپؐ کے ساتھی اہل ایمان کے لیے تبشیر کا ہے کہ جس طرح سابقہ رسولوں اور ان کے ساتھیوں پر مصائب آئے اور اُن کا استہزاء بھی کیا گیا اور اُن پر تشدد بھی کیا گیا‘ لیکن بالآخر کامیاب وہی ہوئے اور اللہ کی تائید و نصرت ان کے شامل حال ہوئی ‘اسی طرح بالآخر کامیاب تم ہی رہو گے. البتہ اہل ایمان کے صبر وثبات اور عزم و ہمت کا امتحان اللہ ضرور لیا کرتا ہے .اس کے لیے تمہیں بھی تیار رہنا چاہیے. چنانچہ سورۂ یونس کا اختتام ہوا ان الفاظ پر کہ:

وَ اصۡبِرۡ حَتّٰی یَحۡکُمَ اللّٰہُ ۚۖ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡحٰکِمِیۡنَ ﴿۱۰۹﴾٪
’’اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ صادر فرما دے ‘اور اللہ ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے.‘‘

اور سورۂ ہود کے آخر میں پہلے آیت ۱۱۵ میں فرمایا:
وَ اصۡبِرۡ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۱۵﴾ 
’’اور صبر کرو‘اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خوب کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا.‘‘

اور پھر آیت ۱۲۰ تا ۱۲۳ میں فرمایا:
’’اور اِن رسولوں کی تمام سرگزشتیں ہم تمہیں اس لیے سنا رہے ہیں کہ ان کے ذریعے (اے نبیؐ !) ہم تمہارے دل کو تقویت دیں‘چنانچہ ان میں تمہارے لیے 
بھی حق الیقین مضمر ہے اور اہل ایمان کے لیے بھی نصیحت اور یاد دہانی.اور جو لوگ ایمان نہیں لا رہے ان سے ڈنکے کی چوٹ کہہ دو کہ تم اپنی سی کیے جاؤ ‘ہم بھی پورا زور صرف کریں گے‘ پھر نتیجے کا انتظار تم بھی کرو اور ہم بھی منتظر ہیں. اور آسمانوں اور زمین کا غیب تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے اور اسی کی طرف تمام امور فیصلے کے لیے لوٹتے ہیں. پس اسی کی بندگی کرو اور اسی پر بھروسہ رکھو. اور جو کچھ تم کر رہے ہو تمہارا ربّ اس سے بے خبر ہرگز نہیں ہے!‘‘

سورۂ یونس میں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مسلمان حضرت یونس ؑ کی طرح جلدی میں کوئی اقدام کر بیٹھیں تو اس کا فائدہ تمام تر کفار کو ہو گا‘ جیسا کہ حضرت یونس ؑ کی قوم کو ہوا کہ ان پر آیا ہوا عذاب ٹل گیا. اور ہو سکتا ہے کہ مسلمان اللہ کی طرف سے کسی تا دیبی سلوک کے مستحق ٹھہریں. جیسا کہ معاملہ ہوا تھا حضرت یونس ؑ کے ساتھ!پس مسلمانوں کو کفار کی تعذیب و ایذاء پر صبر کرتے ہوئے اپنی دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھنا چاہیے اور فیصلہ تمام تر اللہ کے حوالے کر دینا چاہیے!

ایمانیاتِ ثلاثہ یعنی توحید‘معاد اور رسالت میں سے ان دونوں سورتوں میں اصل زور رسالت کے اثبات اور بالخصوص آنحضور کی نبوت کے ثبوت کے طور پر قرآن مجید کے اعجاز پر دیا گیا ہے. چنانچہ دونوں سورتوں کا آغاز قرآن حکیم کے ذکر ہی سے ہوتا ہے. سورۂ یونس میں اختصار کے ساتھ کہ:

الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱
’’ا ل ر . یہ حکمت والی کتاب کی آیتیں ہیں.‘‘

پھر سورۂ ہود میں کہ:

الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾ 
’’ال ر . یہ قرآن ایسی کتاب ہے جس کی آیات پہلے محکم کی گئیں اور پھر ان کی تفصیل کی گئی اس ہستی کی جانب سے جو کمال حکمت کی حامل اور ہر چیز سے باخبرہے!‘‘

مزید برآں دونوں سورتوں میں قرآن مجید کے ضمن میں چیلنج کیا گیا ہے کہ اگر تم اس کے بارے میں شک کرتے ہو کہ یہ محمد کی اپنی تصنیف ہے تو ذرا تم بھی طبع 
آزمائی کر دیکھو اور تمام خطیبوں‘شاعروں اور ادیبوں کو جمع کر کے کوشش کرو کہ اس جیسی دس بلکہ ایک ہی سورت تصنیف کر سکو‘چنانچہ سورۂ ہود میں فرمایا:

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِعَشۡرِ سُوَرٍ مِّثۡلِہٖ مُفۡتَرَیٰتٍ وَّ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۳﴾فَاِلَّمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَکُمۡ فَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَاۤ اُنۡزِلَ بِعِلۡمِ اللّٰہِ وَ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ فَہَلۡ اَنۡتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۴﴾ 
’’ کیا ان لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ اسے تم نے خود گھڑ لیا ہے؟ تو کہہ دو کہ لاؤ اس جیسی دس سورتیں گھڑی ہوئی اور اللہ کے سوا جسے چاہو مدد کے لیے بلا لو اگر تم سچے ہو. پھر اگر وہ تمہارا یہ چیلنج قبول نہ کریں تو یقین کرنا چاہیے کہ یہ اللہ کے علم ہی سے نازل ہوا ہے ‘اور یہ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں‘تو اب بھی اسلام لاتے ہو یا نہیں؟‘‘

اور سورۂ یونس میں اس چیلنج کو آخری منطقی حد تک پہنچا دیا کہ:

وَ مَا کَانَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنُ اَنۡ یُّفۡتَرٰی مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ (آیت ۳۷
’’اوریہ قرآن ہرگز ایسی کتاب نہیں ہے کہ اللہ کے سوا کوئی اور اسے تصنیف کرسکے.‘‘

اور یہ کہ:

اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ ؕ قُلۡ فَاۡتُوۡا بِسُوۡرَۃٍ مِّثۡلِہٖ وَ ادۡعُوۡا مَنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۳۸﴾ 
’’کیا ان کا کہنا یہ ہے کہ پیغمبر نے اسے خود گھڑ لیا ہے؟ تو کہہ کہ اگر تم سچے ہو تو اللہ کے سوا جس کو بھی بلا سکو بلا لو اور سب مل کر اس جیسی ایک ہی سورت پیش کر کے دکھا دو!‘‘

اس کے علاوہ دونوں ہی سورتوں میں یہ مضمون بھی وارد ہوا ہے کہ کفار ومشرکین نے تھک ہار کر مصالحت کی غرض سے یہ تجویز پیش کی کہ اس قرآن میں قدرے ترمیم کر دو توہم تسلیم کر لیں گے‘اس خیال سے کہ بالفرض کسی امن پسند اور صلح جُو شخص کے دل میں ان کے اس دامِ ہم رنگِ زمیں کے لیے کوئی نرم گوشہ پیدا ہو جائے. سورۂ ہود میں بظاہر آنحضور سے خطاب کرتے ہوئے لیکن اصلاً بطرزِ تعریض کفار کو ملامت کرتے ہوئے فرمایا: ’’تو شاید کہ تم اپنی جانب کی گئی وحی میں سے کچھ کو ترک کر دو گے اور تمہارا سینہ ان کے اس قول پر بھنچ کر رہ جاتا ہے کہ ان پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا یا ان کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا. تو جان لو کہ تمہارا کام صرف خبردار کر دینا ہے‘باقی ہر چیز کا اصل ذمہ دار اللہ ہے!‘‘ (آیت ۱۲

اور سورۂ یونس میں فرمایا:
’’جب ان کو ہماری آیاتِ بینات سنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہمارے حضور میں حاضری کا یقین نہیں وہ کہتے ہیں کہ یا تو اس کے علاوہ کوئی اور قرآن پیش کرویا اس میں ترمیم کرو. کہہ دو! میرے لیے ہرگز ممکن نہیں ہے کہ میں اپنے جی سے اس میں تغیر و تبدل کر سکوں‘میں تو خود پابند ہوں اس کا جو میری جانب وحی کیا جاتا ہے. اور اگر میں نے اپنے ربّ کی نافرمانی کی تو خود مجھے بھی اپنے ربّ سے بڑے دن کی سزا کا خوف ہے!‘‘ 
(آیت ۱۵)

اور یہی ہے وہ بات جو سورۂ یونس کے اختتام پر آنحضور سے خطاب کر کے فرمائی گئی کہ:
وَ اتَّبِعۡ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیۡکَ وَ اصۡبِرۡ حَتّٰی یَحۡکُمَ اللّٰہُ ۚ (آیت ۱۰۹

’’اوراتباع کیے جاؤ اس کا جو تمہاری طرف وحی کیا جا رہا ہے اور صبر کرو‘ یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ فرما دے.‘‘ 
اور آیات ۵۷۵۸ میں یہ بات خطابِ عام کے انداز میں فرمائی گئی کہ:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا ؕ ہُوَ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۵۸﴾ 
’’لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت‘سینوں کے امراض کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ گئی ہے. کہہ دو یہ اللہ کے فضل کا کرشمہ اور اس کی رحمت کا ظہور ہے‘ تو چاہیے کہ لوگ اس پر شاداں و فرحاں ہوں. اس لیے کہ یہ ان سب چیزوں سے بہت بہتر اور قیمتی ہے جنہیں یہ جمع کر رہے ہیں!‘‘ آنحضور کی نبوت و رسالت اور قرآن مجید کے ذکر کے بعد سب سے نمایاں مضمون ان دونوں سورتوں میں انذار کا ہے‘ جس میں اس مرحلے کی مناسبت سے جس میں یہ نازل ہوئی ہیں ‘کافی شدت اور غضبناکی کا انداز پایا جاتا ہے. چنانچہ ان میں ایک جانب سورۃ الکافرون کا سا اعلان براء ت بھی موجود ہے‘جیسے سورۂ یونس کی آیت ۴۱ میں فرمایا:

’’اور اگر وہ آپ کو جھٹلائیں تو آپ بھی کہہ دیں کہ میرے لیے ہے میرا عمل اور تمہارے لیے ہے تمہاری کمائی‘تم بری ہو میرے اعمال سے اور میں بری ہوں تمہارے کرتوتوں سے.‘‘

اور آیت ۱۰۴ میں فرمایا:
’’کہہ دو اے لوگو! اگر تمہیں میرے دین کے بارے میں کوئی شک ہے تو سن رکھو کہ میں ہرگز پوجنے والا نہیں ہوں جنہیں تم پوجتے ہو اللہ کے سوا‘بلکہ میں تو اس اللہ کا پوجنے والا ہوں جو تمہاری جانیں قبض کرے گا ‘اور مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ اس پر ایمان رکھنے والوں میں شامل رہوں!‘‘

اور دوسری طرف عذاب کی بھی شدید دھمکی پائی جاتی ہے‘مثلاًسورۂ یونس کی آیات ۴۷ تا ۵۳ میں فرمایا:

’’اورہر اُمت کے لیے ایک رسول ہوتا ہے ‘تو جب اُن کا رسول آ جاتا ہے تو ان کا قضیہ انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جاتا.اور وہ کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو بتاؤ یہ وعدہ ہمارے بارے میں کب پورا ہو گا؟ کہہ دو کہ جہاں تک میرا تعلق ہے تو مجھے تو خود اپنے نفع و نقصان کا بھی کوئی اختیار حاصل نہیں‘سوائے اس کے کہ اللہ ہی جو چاہے (اُس کا فیصلہ صادر ہو جائے). البتہ ہر قوم کے لیے ایک متعین وقت ہوتا ہے‘تو جب اُن کا وہ متعین وقت آ جاتا ہے تو نہ وہ ایک گھڑی پیچھے سرک سکتے ہیں نہ آگے. ان مجرموں سے کہو کہ اگر اللہ کا عذاب رات کو آئے یا دن کے وقت‘ آخر ان کے پاس حفاظت کا وہ کون سا سامان ہے جس کے بھروسے پر عذاب کی جلدی مچائے جا رہے ہیں؟ تو اے لوگو! کیا تم اُس وقت مانو گے جب عذابِ الٰہی آ ہی دھمکے گا؟ (اُس وقت ان سے کہا جائے گا کہ) اب ماننے سے کیا فائدہ‘جبکہ پہلے تم اس کے لیے جلدی مچاتے رہے. پھر ان ظالموں سے کہا جائے گا کہ اب تو بس ہمیشگی عذاب ہی کا مزا چکھو‘ یہ تمہاری اپنی کمائی ہے جس کا بدلہ تم پا رہے ہو. اور یہ آپ سے پوچھتے ہیں کیا واقعی شدنی ہے جو تم کہہ رہے ہو؟ کہہ دو ہاں‘ میرے ربّ کی قسم! یہ اٹل ہے‘ اور (جب وہ آئے گا تو )تم اُس کو ہرگز نہ روک سکو گے (اُس کے قابو سے نہ نکل سکو گے)!‘‘

کفار و مشرکین کو انذار کے ساتھ ساتھ ان دونوں سورتوں میں اہل ایمان کے لیے تبشیر کا رنگ بھی نمایاں ہے. چنانچہ سورۂ یونس کی دوسری آیت ہی میں جہاں حضور کو یہ حکم ہوا کہ لوگوں کو ان کی بدعملی و بدکرداری کے انجام سے خبردار کردو ‘وہاں ساتھ یہ ہدایت بھی ملی کہ اہل ایمان کو بشارت دے دو کہ: اَنَّ لَہُمۡ قَدَمَ صِدۡقٍ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ ؕ ’’کہ ان کے لیے اُن کے ربّ کے پاس بڑا بلند رُتبہ ہے‘‘.اور پھر اسی سورت کی آیات ۹۱۰ میں اس کی تشریح فرما دی:
’’یقیناجو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ اُن کو اُن کے ایمان کی بدولت اُن کی منزلِ مراد تک پہنچا دے گا‘ یعنی نعمت کے باغوں میں جن کے دامن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی .اور وہاں ان کا ترانہ ہو گا حمد باری تعالیٰ پر مشتمل‘اور آپس کا دعائیہ کلمہ ہو گا سلام! اور آخری بات ان کی یہی ہو گی کہ ساری تعریف اور تمام شکر اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالن ہار ہے.‘‘

اور آیات ۶۲ تا ۶۴ میں فرمایا کہ:
’’آگاہ ہو جاؤ ! اللہ کے دوستوں کے لیے نہ کوئی خوف کا مقام ہے اور نہ رنج کا اندیشہ .یعنی ان کے لیے جو ایمان لائے اور تقویٰ پر کاربند رہے.ان کے لیے بشارتیں ہی بشارتیں ہیں دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘اللہ کی باتوں کا بدلنے والا کوئی نہیں‘یہی عظیم کامیابی ہے!‘‘ 

اللہ تعالیٰ اپنے کمال فضل و کرم سے ہمیں بھی اس میں سے حصہ عطا فرمائے!
آمِیْنَ یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ!