سورۃ الحجر کا آغاز بھی قرآن حکیم ہی کے ذکر سے ہوا کہ:

الٓرٰ ۟ تِلۡکَ اٰیٰتُ الۡکِتٰبِ وَ قُرۡاٰنٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۱﴾ 
’’ا ل ر . یہ کتابِ الٰہی اور قرآنِ مبین کی آیات ہیں!‘‘

اور اُس کے فوراً بعد بڑے تیکھے انداز میں فرمایا گیا کہ اِس وقت تو یہ کفار ومعاندین طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں اور ہمارے نبیؐ پر فقرے کس رہے ہیں ‘حتیٰ کہ انہیں مجنون اور دیوانہ کہنے سے بھی گریز نہیں کر رہے ‘لیکن ایک وقت آئے گا کہ :

’’جن لوگوں نے (اس کتاب کی سچائی سے) انکار کر دیا ہے وہ تمنا کریں گے (اورکف ِ افسوس مل کر کہیں گے )کہ کاش ہم سرتسلیم خم کر دیتے (دنیا میں ایمان لے آتے اور اطاعت قبول کر لیتے).تو(اے نبیؐ !) آپ انہیں ذرا چھوڑیے (اُن کی پرواہ نہ کیجیے) یہ ذرا کھاپی لیں اور مزے کر لیں اور بھلاوے میں ڈالے رکھے ان کو جھوٹی اُمید. عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا‘‘. (آیات ۲۳

اس کے بعد آنحضور کی دلجوئی کے لیے فرمایا گیا:
’’اورہم نے آپ ؐ سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں اپنے رسول بھیجے . اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کے پاس کوئی رسول آیاہو اور انہوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو (آپ کی طرح اُن سب کا مذاق اڑایا گیا).مجرموں کے دلوں میں تو ہم اس ذکر کو اسی طرح (سلاخ کے مانند) گزارتے ہیں. وہ اس پر ایمان نہیں لایا کرتے‘ قدیم سے اس قماش کے لوگوں کا یہی طریقہ چلا آ رہا ہے.(یعنی اب یہ لوگ بھی ایمان لانے والے نہیں ہیں.رہا ان کا یہ مطالبہ کہ ہمیں کوئی صریح اور محسوس معجزہ دکھا دو تو ہم مان لیں گے تو آپ یقین رکھیں کہ) اگر ہم اُن کے لیے آسمان میں ایک دروازہ کھول دیں اور یہ اس میں دن دیہاڑے چڑھنے لگیں تو بھی یہ یہی کہیں گے کہ ہماری نظر بندی کر دی گئی اور ہم پر جادو کر دیاگیا تھا!‘‘ 
(آیات ۱۰ تا ۱۵

سورۃ الحجر کا تیسرا رکوع بہت اہمیت کا حامل ہے‘اس لیے کہ اس میں قصۂ آدم و ابلیس ایک نئے انداز میں بیان ہوا. اس سے قبل یہ قصہ سورۃ البقرۃ کے چوتھے اور سورۃ الاعراف کے دوسرے رکوع میں بیان ہو چکا ہے. اس مقام پر ایک تو حضرت آدم علیہ السلام کے مادۂ تخلیق کے بارے میں مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ ﴿۳۳﴾ (سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے) ایسے بھاری الفاظ جوں کے توں پورے تین بار آئے جس سے اشارہ ہوا کہ حضرت آدم علیہ السلام کا مادۂ تخلیق ایسا سنا اور سڑا ہوا گارا تھا جو سوکھ کر کھنکھنانے لگا تھا‘ جس کی تائید ہوتی ہے جدید سائنسی انکشاف سے کہ حیات کا آغاز ان دلدلی علاقوں میں ہوا جہاں مٹی اور پانی کے مسلسل تعامل سے خمیر سا اُٹھ آتا ہے اور گارے میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے. دوسرے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم ملائکہ کو تخلیق آدم سے بہت قبل دے دیا گیا تھا. تیسرے یہ کہ آدم علیہ السلام کی فضیلت کی اصل بنیاد وہ رُوحِ ربانی ہے جو اُن کے جسد ِخاکی میں پھونکی گئی اور جسے اللہ نے واحد متکلم کی ضمیر کے حوالے سے خاص اپنی ذات کی جانب منسوب کیا ہے ‘بفحوائے الفاظِ قرآنی: فَاِذَا سَوَّیۡتُہٗ وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ فَقَعُوۡا لَہٗ سٰجِدِیۡنَ ﴿۲۹﴾ 

’’پس جب میں اس کی تخلیق مکمل کر لوں (اس کی نوک پلک سنوار دوں) اور اس میں پھونک دُوں اپنی رُوح میں سے تو گر پڑنا اُس کے سامنے سجدے میں!‘‘

ان حقائق و معارف ِ علمیہ کے ساتھ ساتھ واضح کر دی گئی وہ حقیقت جو قرآن میں اس قصے کے بتکرار و اعادہ ذکر کے اصل مقصد کی حیثیت رکھتی ہے کہ آدم کی اِسی فضیلت پر شیطان حسد کی آگ میں جل اُٹھا اور اُس کے دل میں آدم اور ذُرّیت ِآدم کی عداوت اور دشمنی نے جڑ پکڑ لی. چنانچہ اللہ سے مہلت مل جانے پر اب وہ تاقیامت نسل انسانی کی گمراہی کے درپے ہے اور اُسے تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے. اس ضمن میں وہ حقیقت بھی بیان کر دی گئی جو اس سے قبل سورۂ ابراہیم علیہ السلام میں میدانِ حشر کے مکالمے کی صورت میں بیان ہو چکی ہے. یعنی یہ کہ شیطان کو اللہ کے بندوں پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے. وہ گناہ کی دعوت ضرور دیتا ہے لیکن اس کو قبول کرنا یا نہ کرنا سراسر انسان کے اپنے اختیار میں ہے‘بفحوائے الفاظ قرآنی: 

اِنَّ عِبَادِیۡ لَیۡسَ لَکَ عَلَیۡہِمۡ سُلۡطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۴۲﴾ 
’’بے شک میرے بندوں پر تجھے کوئی اختیار حاصل نہیں ہو گا‘ سوائے ان نابکاروں کے جو خود ہی تیری پیروی اختیار کر لیں.‘‘

اس کے بعد مکی سورتوں کے عام اسلوب کے مطابق انبیاء و رُسل علیہم السلام کا ذکر ہے‘اور یہاں تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے حضرت لوط علیہ السلام اور اُن کی قوم کا. اور اسی کے ذیل میں ضمناً ذکر آیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کہ وہی فرشتے جو حضرت لوط علیہ السلام کی قوم پر عذاب کا فرمان لے کر نازل ہوئے تھے ‘حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کی خوشخبری بھی دینے گئے. حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے انجام کے ذکر کے بعد اجمالاً اشارہ کیا گیا قومِ شعیبؑ اور قومِ صالح ؑ کے انجام کی طرف‘ اس صراحت کے ساتھ کہ ان تینوں اقوام کی تباہ شدہ بستیاں اور اُن کے مساکن کے کھنڈرات ’’سبیلِ مقیم ‘‘ یعنی اس تجارتی شاہراہ پر واقع ہیں جس پر اہل عرب کے تجارتی قافلے دن رات چلتے رہتے تھے. یعنی شمال سے جنوب کی جانب پہلے قومِ لوطؑ کی تباہ شدہ بستیاں‘پھر قومِ شعیب علیہ السلام کے تباہ شدہ مسکن اور قومِ ثمود کے کھنڈرات.

مکی دَور کے اوائل میں نازل ہونے والی اکثر سورتوں کی طرح سورۃ الحجرکے آخر میں بھی آنحضور کے ساتھ مفصل خطاب بھی ہے اور آپ کی جانب خصوصی عنایت اور التفات بھی. جس کا حاصل یہ ہے کہ:

’’اور(اے نبیؐ !) ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے مابین ہے‘ حق کے ساتھ بنائے ہیں.اور قیامت بہرحال آ کر رہے گی جبکہ ہر ایک کو اپنے کیے کا پورا بدلہ مل جائے گا‘ تو آپؐ ذرا ان کافروں سے درگزر فرمائیں اور اُن کے تمسخر و استہزاء کو نظر انداز کر دیں. آپ کا رب جہاں سب کا خالق ہے وہاں سب کے حال سے باخبر بھی ہے! اور ہم نے آپ کو سات بار بار دہرائی جانے والی آیات یعنی سورۃ الفاتحہ ایسی نعمت عظیمہ اور قرآن عظیم ایسی دولت بے بہا عطا فرمائی ہے. تو آپ ان لوگوں کی جانب نگاہ اُٹھا کر بھی نہ دیکھیں جنہیں ہم نے اس دُنیا کی حقیر سی پونجی وافر مقدار میں عطا کر دی ہے اور نہ ہی اُن کے بارے میں رنج و اندوہ آپؐ کے قلب پر طاری ہونے پائے. آپ کی عنایت و شفقت شامل حال رہنی چاہیے اہل ایمان کے! اورصاف کہہ دیجیے کہ میں تو کھلا خبردار کر دینے والا ہوں. جیسا کہ ہم نے وعید نازل کی ہے اُن کے لیے جو قرآن کا استہزاء کرتے ہیں. تو آپ کے ربّ کی قسم!ہم ان سب سے پوچھ لیں گے کہ وہ کیا کرتے رہے تھے! اور آپ ڈنکے کی چوٹ اعلان کر دیجیے جس کا حکم آپ کو ہوااور مشرکوں کی پرواہ مت کیجئے ‘اُن کے تمسخر و استہزاء سے ہم نبٹ لیں گے. وہ لوگ جو اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ٹھہرا رہے ہیں انہیں عنقریب حقیقت معلوم ہو جائے گی.اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان لوگوں کی باتوں سے آپ کو صدمہ ہوتا ہے.پس آپؐ اپنے ربّ کی تسبیح و تحمید میں لگے رہیے اور اس کے سامنے سربسجود ہونے والوں میں شامل رہیے. اور تادمِ آخر اس کی پرستش پر کار بند رہیے!‘‘ (آیات ۸۵ تا۹۹

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ!