سابقہ سورتوں کے برعکس سورۃ النحل کے آغاز میں نہ حروفِ مقطعات ہیں نہ قرآن مجید کی عظمت کا کوئی تمہیدی بیان ‘بلکہ بات براہِ راست تنبیہہ سے شروع ہو گئی کہ: 

اَتٰۤی اَمۡرُ اللّٰہِ فَلَا تَسۡتَعۡجِلُوۡہُ ؕ سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ﴿۱
’’اللہ کا فیصلہ (سر پر) آیا کھڑا ہے ‘تو اس کے لیے جلدی نہ مچاؤ .وہ پاک اور بلند و برتر ہے اس شرک سے جو وہ کر رہے ہیں!‘‘ بعینہٖ یہی رنگ اس سورۂ مبارکہ کے اختتام پر بھی ہے ‘صرف اس فرق کے ساتھ کہ آغاز میں کفار ومشرکین کے لیے اِنذار کا رنگ ہے اور اختتام پر آنحضور اور اہل ایمان کے لیے تبشیر کا. یعنی :

’’پس (اے نبیؐ !)صبر کرو اور ظاہر ہے کہ تمہارا صبر اللہ ہی کے بھروسے پر قائم ہے‘اور تمہیں نہ تو ان (کفار ومشرکین) کے انجام پر غمگین ہونے کی ضرورت ہے نہ ان کی (مخالفانہ) چالوں اور تدبیروں سے پریشان ہونے کی.یقینااللہ ساتھ ہے (یعنی اس کی تائید و نصرت شامل حال ہے) ان کے جنہوں نے تقویٰ اور احسان کی روش اختیار کی!‘‘

قرآن حکیم میں 
’’تذکیر بآلآء اللّٰہ‘‘ یعنی اللہ کی نعمتوں کے حوالے سے اس پر ایمان لانے‘اُس کی توحید پر کاربند رہنے ‘اُس کی جزا و سزا پر یقین رکھنے اور اس کے احکام پر کاربند رہنے کی دعوت کی سب سے زیادہ شاندار مثال غالباً سورۃ النحل ہی ہے. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کے مضامین کا تانا بانا اللہ تعالیٰ کی ارضی و سماوی‘ آفاقی و انفسی‘ظاہری و باطنی اور محسوس و معقول نعمتوں کے ذکر سے تیار ہوا ہے‘ اور ان ہی میں جا بجا سجا دیے گئے ہیں توحید‘معاد اور رسالت کے اساسی مضامین‘ اور ان دونوں کے باہمی ربط وتعلق کے جانب اشارہ کیا گیا ہے ایسے الفاظ سے کہ:

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۱۱﴾ 
’’بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر سے کام لیں.‘‘

اور: 
اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿ۙ۱۲
’’یقینا اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیں.‘‘

اور: 
اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّذَّکَّرُوۡنَ ﴿۱۳
’’بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو یاد دہانی حاصل کریں.‘‘

اور:
اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوۡمٍ یَّسۡمَعُوۡنَ ﴿٪۶۵﴾ 
’’یقینا اس میں نشانی ہے اُن کے لیے جو سنتے ہیں.‘‘

اور: 
اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۷۹
’’بے شک اس میں نشانی ہے ان لوگوں کے لیے جو ماننے پر آمادہ ہوں.‘‘

چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر جس جامعیت کے ساتھ اس سورۂ مبارکہ میں ملتا ہے اس کی شاید ہی کوئی دوسری نظیر قرآن مجید میں موجود ہو. 

اس مضمون کا آغاز آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے ذکر سے ہوا کہ اللہ نے اس کائنات کو حق کے ساتھ تخلیق فرمایا. پھر ذکر ہوا انسان کی تخلیق کا کہ اسے پید اکیا اُس نے نطفے سے ‘تو کیسی عجیب بات ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک ہی کے بارے میں جھگڑتا ہے! پھر ذکر آیا چوپایوں کی تخلیق کا کہ پیدا کیے اُس نے لا تعداد چوپائے جن سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو‘ان کو اپنی سواری کے طور پر بھی استعمال کرتے ہو اور باربرداری کے کام میں بھی لاتے ہو. پھر ان میں تمہارے لیے حسن و جمال اور زیبائش و آرائش کا سامان بھی ہے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کے گوبر اور خون کے درمیان سے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے دودھ ایسا پاکیزہ اور اعلیٰ مشروب فراہم کرتا ہے‘اور تم ان کی کھالوں سے خیمے تیار کرتے ہو اور ان کے بالوں اور اُون کو دوسرے بے شمار مصارف میں لاتے ہو. پھر ذرا بارش پر غور کرو.اللہ تعالیٰ پانی برساتا ہے جسے تم اپنی پیاس بجھانے کے کام میں بھی لاتے ہو اور کاشت کا ذریعہ بھی بناتے ہو. چنانچہ اللہ اس کے ذریعے تمہارے لیے غلہ اور زیتون‘کھجور اور انگور‘اور بے شمار دوسرے پھل اُ گاتا ہے جن سے تم رزقِ حسن بھی حاصل کرتے ہو اور سُکرو سرور پیدا کرنے والی چیزیں بھی. پھر ذرا یہ تو دیکھو کہ اس زمینی پیداوار میں کتنی رنگا رنگی و بو قلمونی موجود ہے! کیسے کیسے حسین و جمیل اور رنگا رنگ پھول اس نے کھلا دیے ہیں اور کتنی انواع و اقسام کے پھل اس نے تمہارے لیے پیدا کیے ہیں.

پھر ذرا غور کرو کہ رات اور دن کا نظام کس طرح تمہاری ضروریات کی فراہمی میں لگا ہوا ہے اور شمس و قمر اور تمام اجرامِ فلکی کیسے تمہاری چاکری میں مصروف ہیں. پھر ذرا سمندر پر بھی نظر ڈالو کہ کیسے تمہاری خدمت سر انجام دے رہا ہے .اس میں سے تم تازہ اور عمدہ گوشت بطورِ غذا حاصل کرتے ہو‘اس کے سینے کو اپنے سفینوں سے چیرتے ہو‘اور اس کی گہرائیوں میں سے رنگا رنگ موتی اور دوسرا سامانِ آرائش نکالتے ہو… وَ اِنۡ تَعُدُّوۡا نِعۡمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحۡصُوۡہَا ؕ (آیت ۱۸’’واقعہ یہ ہے کہ اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو کبھی اُن کا شمار پورا نہ کر سکو! ‘‘اور ذرا پہاڑوں کو دیکھو کہ زمین کے لیے کیسے لنگروں کا کام دے رہے ہیں اور زمین کو دیکھو کہ اسے کس طرح دریاؤ ں اور قدرتی شاہراہوں سے مزین کر دیا گیا ہے!اور تو اور ذرا ہماری ننھی سی مخلوق شہد کی مکھی کو دیکھو کہ کس طرح انواع و اقسام کے پھلوں اور پھولوں سے رس چوس کر تمہارے لیے وہ رنگا رنگ مشروب تیار کرتی ہے جس میں تمہارے لیے غذائیت بھی ہے اور بے شمار اَمراض کی دوا و شفا بھی: اَفَبِنِعۡمَۃِ اللّٰہِ یَجۡحَدُوۡنَ ﴿۷۱﴾ ’’تو کیا (اے نبیؐ !) یہ اللہ کی نعمتوں کا انکار کر دیں گے؟‘‘

اب ذرا نگاہ کو خود اپنے نفوس پر مرتکز کرو‘اللہ نے تمہیں ماؤ ں کے پیٹوں سے برآمد کیا اس حال میں کہ تمہیں نہ کوئی علم تھا نہ شعور‘اس نے تمہیں سماعت‘بصارت اور دل و دماغ ایسی نعمتیں عطا فرمائیں‘پھر تمہیں طرح طرح سے رزق عطا فرمایا اور انواع و اقسام کا ساز و سامان عطا کیا. مزید برآں تمہیں اپنی ہی جنس سے جوڑا عطا کیا اور اُس سے اولاد عطا فرمائی: اَفَبِالۡبَاطِلِ یُؤۡمِنُوۡنَ وَ بِنِعۡمَتِ اللّٰہِ ہُمۡ یَکۡفُرُوۡنَ ﴿ۙ۷۲﴾ ’’تو کیا پھر بھی یہ باطل کے اقرار اور اللہ کی نعمتوں کے انکار کی روش پر قائم رہیں گے؟‘‘

پھر ذرا پرندوں کو دیکھو کہ کیسے فضا میں تیرتے پھرتے ہیں.پھر اپنے گھروں کا دھیان کرو‘انہیں اللہ نے تمہارے لیے کس طرح امن اور سکون کا گہوارہ بنا دیا ہے.مزید برآں درختوں کے سائے اور پہاڑوں کے غاروں پر غور کرو کہ کیسے سورج کی تمازت اور دوسرے موسمی اثرات سے تمہیں بچاتے ہیں.پھر اپنے لباس پر غور کرو جو تمہارے لیے ذریعہ ٔ حفاظت بھی ہے اور موجب زینت بھی.پھر ذرا زرہوں اور خودوں کو دیکھو کہ وہ تمہیں حملہ آوروں سے کیسے محفوظ رکھتے ہیں:

کَذٰلِکَ یُتِمُّ نِعۡمَتَہٗ عَلَیۡکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تُسۡلِمُوۡنَ ﴿۸۱﴾فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۸۲﴾ 
’’اسی طرح اللہ اپنی نعمتوں کا اتمام فرماتا ہے تم پر تاکہ تم( اس کی) اطاعت قبول کر لو!تو (اے نبی!) اگر یہ پھر بھی اعراض کریں تو آپ کے ذمے تو بس صاف صاف پہنچا دینا ہے!‘‘ 

ان بدبختوں کا حال یہ ہے کہ:

یَعۡرِفُوۡنَ نِعۡمَتَ اللّٰہِ ثُمَّ یُنۡکِرُوۡنَہَا وَ اَکۡثَرُہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿٪۸۳﴾ 
’’یہ اللہ کی نعمتوں کو پہچاننے کے بعد اُن کا انکار کرتے ہیں اور اُن کی اکثریت ناشکروں پر مشتمل ہے.‘‘

الغرض اس سورۂ مبارکہ کے مضامین کا مرکز و محور اللہ تعالیٰ کی گونا گوں نعمتوں کا ذکر اور ان کے حوالے سے اللہ کی توحید اور اس کی قدرتِ کاملہ اور حکمت ِبالغہ پر ایمانِ محکم اور بعث بعد الموت اور جزا و سزا اور وحی ٔ نبوت اور رسالت پر پختہ یقین کی دعوت ہے. چنانچہ اُس کے آخر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکر میں بھی: ’’شَاکِرًا لِّاَنْعُمِہٖ‘‘ کے الفاظ خصوصیت سے وارد ہوئے‘یعنی ’’وہ اللہ کی نعمتوں پر بھرپور شکر ادا کرنے والے تھے!‘‘ (آیت ۱۲۱

اس ضمن میں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ’’حکمت ِ قرآنی‘‘ کے قصرِ عظیم کی بنیاد اسی جذبۂ شکر الٰہی پر قائم ہے ‘بفحوائے الفاظِ قرآنی: وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ (لقمٰن:۱۲’’اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ کر شکر اللہ کا!‘‘ چنانچہ سورۃ النحل میں حکمت ِقرآنی کی اس اساس کو محکم طو رپر قائم کر دیا گیا ‘اور بعد کی دو سورتوں یعنی سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف میں اس حکمت کے مضمرات و متضمنات کو کھول دیا گیا اور اس کے ثمرات و نتائج کو بیان کر دیا گیا .چنانچہ سورۃ النحل کے آخر میں وارد ہوئے یہ الفاظِ مبارکہ کہ:

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ (آیت ۱۲۵
’’بلاؤ اپنے ربّ کے راستے کی طرف حکمت سے اور عمدہ نصیحت سے اور مجادلہ و مباحثہ کرو اس طور سے جو بہت عمدہ و اعلیٰ ہو.‘‘

اور سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا کہ:

ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ (آیت ۳۹’’یہ باتیں ہیں منجملہ اس حکمت کے جو تیرے ربّ نے تجھ پر نازل فرمائی.‘‘
اس سے سورۃ النحل اور سورۂ بنی اسرائیل کے مضامین کے باہمی ربط کا ایک اہم پہلو بھی واضح ہو گیا! واضح رہے کہ ان الفاظِ مبارکہ میں خصوصی اشارہ ہے سورۂ بنی اسرائیل کے تیسرے اور چوتھے رکوع میں وارد شدہ اوامر ونواہی کی جانب جو ایک صحت مند اور صالح معاشرے کی تعمیر کے لیے لازمی و لابدی ہیں‘اور اُن کی حیثیت اصل میں سورۃ النحل کی آیت ۹۰ کی شرح و تفسیر کی ہے ‘جس میں فرمایا گیا:

اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَ یَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ وَ الۡبَغۡیِ ۚ یَعِظُکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ ﴿۹۰
’’یقینااللہ حکم دیتا ہے (تمہیں) انصاف کا اور احسان کا اور قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی کا ‘اور منع فرماتا ہے (تمہیں) بے حیائی اور بدی اور ظلم و تعدی سے . وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے‘ تاکہ تم سبق حاصل کرو.‘‘

سورۃ النحل اور سورۂ بنی اسرائیل کے مابین ایک اور مشترک موضوع ہجرت کا ہے. ہجرت کا سلسلہ اگرچہ ویسے تو ۶ نبوی ہی میں ہجرتِ حبشہ سے شروع ہو گیا تھا‘لیکن سورۃ‘النحل اور سورۂ بنی ا سرائیل میں جس ہجرت کا ذکر ہے وہ یقینا ہجرتِ مدینہ ہے. معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ النحل اُس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب آنحضور کی اجازت سے مسلمانوں نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت شروع کر دی تھی. چنانچہ پہلے آیت ۴۱ میں فرمایا:

’’جن لوگوں نے ہجرت کی اللہ کی راہ میں اس کے بعد کہ ان پر ظلم ڈھائے گئے‘ہم انہیں لازماً اس دنیا میں بھی اچھا ٹھکانا عطا فرمائیں گے‘ اور آخرت کا اجر تو اعظم و اکبر ہے ہی.کاش کہ انہیں معلوم ہوتا!‘‘

اور پھر آیت ۱۱۰ میں فرمایا:

’’پھر جن لوگوں نے آزمائش کی بھٹیوں میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی ‘ پھر جہاد کیا اور صبر کی روش اختیار کی‘ یقینا ان کے لیے تیرا ربّ ان باتوں کے بعد حددرجہ غفور بھی ہے نہایت رحیم بھی!‘‘
سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف کی طرح سورۃ النحل میں بھی وحی ٔ الٰہی اور اُس کے آخری اور جامع و کامل ایڈیشن قرآنِ حکیم کا ذکر بتکرار و اعادہ آیا ہے.چنانچہ آیت ۲ میں فرمایا:

’’اللہ نازل کرتا ہے فرشتوں کو روح (یعنی وحی) کے ساتھ اپنے امر سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے کہ لوگوں کو خبردار کر دو (اور منادی کر دو) کہ میرے سوائے کوئی معبود نہیں‘پس صرف مجھ ہی سے ڈرو!‘‘
پھر آیات ۲۴۲۵‘اور ۳۰ میں واضح فرمایا کہ اس تنزیل پر کفار اور اہل ایمان کا ردّعمل کس قدر مختلف بلکہ متضاد ہے‘چنانچہ آیت ۲۴ میں فرمایا:

’’اورجب ان سے دریافت کیا جاتا ہے کہ تمہارے ربّ نے کیا نازل فرمایا تو وہ کہتے ہیں:وہی داستان ہائے پارینہ.‘‘
اِس پر آیت ۲۵ میں تبصرہ فرمایا گیا کہ:

’’(اس سبب سے) یہ لوگ قیامت کے دن اپنے بوجھ تو پورے اٹھائیں گے ہی‘ اس کے علاوہ انہیں اُن کے بوجھ بھی اٹھانے پڑیں گے جنہیں یہ لا علمی و نادانی میں گمراہ کر رہے ہیں‘ کتنا برا ہو گا وہ بوجھ جو یہ اٹھائیں گے!‘‘
اس کے بالمقابل آیت ۳۰ میں فرمایا:

’’اور(دوسری طرف جب) اہل اصلاح و تقویٰ سے سوال کیا جاتا ہے کہ تمہارے ربّ نے کیا نازل فرمایا تو کہتے ہیں: ’’سر تا سر خیر‘‘. ان خوب کاروں کے لیے اس دنیا میں بھی خیر اور بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو (ان کے لیے) ہے ہی سرتا سرخیر و خوبی. اورفی الواقع بہت ہی اچھا ہو گا متقیوں کا ٹھکانا.‘‘

سورت کے اواخر میں ایک بار پھر قرآن مجید کی عظمت بھی بیان ہوئی اور اس کے اعجاز کی جانب بھی اشارہ ہوا اور اس کی تلاوت کے آداب بھی تعلیم فرمائے گئے. چنانچہ آیت ۸۹ میں فرمایا:
’’اور (اے نبیؐ !) ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی ہر چیز کی وضاحت کے لیے اور اطاعت شعاروں کے حق میں ہدایت اور رحمت اور بشارت بنا کر.‘‘

اور آیت ۱۰۲ میں فرمایا:

’’کہہ دو (اے نبیؐ !) کہ اتارا ہے اسے رُوح القدس نے تیرے ربّ کی جانب 
سے حق کے ساتھ تاکہ ثبات عطا کرے اہل ایمان کو اور ہدایت اور بشارت بنے اطاعت گزاروں کے حق میں!‘‘

ساتھ ہی اگلی آیت میں واضح کر دیا کہ:

’’اور ہمیں خوب معلوم ہے کہ یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ (قرآن) انہیں (یعنی محمد کو) کوئی انسان سکھا رہا ہے. حالانکہ جس شخص کی جانب وہ اسے منسوب کر رہے ہیں وہ عجمی ہے اور یہ قرآن صاف اور ستھری عربی زبان میں ہے.‘‘
آدابِ تلاوت ِقرآن کے ذیل میں آیت ۹۸ میں فرمایا:

’’پس جب قرآن کی تلاوت کرنے لگو تو پہلے شیطانِ مردود کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کر لیا کرو.‘‘

اس کے ساتھ ہی آیت ۱۲۵ کو بھی شامل کر لینا چاہیے جس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے‘ یعنی یہ کہ:

’’بلاؤ اپنے ربّ کے راستے کی طرف حکمت سے اور موعظۂ حسنہ سے اور اِن سے بحث و نزاع کی ضرورت پڑ ہی جائے تو وہ اس طور سے کرو جو اعلیٰ و احسن ہے.‘‘

اس لیے کہ اس آیہ ٔ مبارکہ میں دعوت کے ضمن میں جن تین چیزوں کی جانب رہنمائی کی گئی ان میں سے بفحوائے الفاظِ قرآنی: 

ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ (بنی اسراء یل:۳۹
حکمت بھی قرآن ہی کا ایک جزو ہے اور بفحوائے الفاظِ ربانی:
قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ (یونس:۵۷
موعظۂ حسنہ بھی قرآن ہی کا ایک حصہ ہے ‘اور مباحثے اور مجادلے کی احسن صورتیں بھی وہی ہیں جو قرآن مجید میں وارد ہوئیں.

اس طرح یہ آیت گویا شرح ہے سورۂ قٓ کی آخری آیت کی کہ:

فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵
’’پس یاد دہانی کراؤ قرآن کے ذریعے اسے جسے ہماری دھمکیوں اور وعیدوں کا ذرا بھی خوف ہے.‘‘ 

’’شہادت علی الناس‘‘ کا جو مضمون مدنی سورتوں میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے وہ ہجرت سے متصلاً قبل نازل ہونے والی دو سورتوں یعنی سورۃ الحج اور سورۃ النحل میں بھی موجود ہے. چنانچہ سورۃ الحج میں تو اس کا وہ دُنیوی پہلو واضح کیا گیا ہے جسے سورۃ البقرۃ میں اُمت مسلمہ کی غرضِ تأسیس قرار دیا گیا ہے اور سورۃ النحل میں اس کا وہ اُخروی پہلو دو 
آیات میں بیان کیا گیا جو سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ میں مذکور ہے. یعنی:

’’اورجس دن کہ ہم کھڑا کریں گے ہر اُمت میں سے ایک گواہ‘پھر ان کافروں کو نہ اس کی اجازت ملے گی (کہ خواہ مخواہ کے جھوٹے بہانے بنائیں) اور نہ ہی اُن کے غیظ و غضب کی پرواہ کی جائے گی.‘‘
(آیت ۸۴

اور:

’’اور جس دن کہ ہم کھڑا کریں گے ہر اُمت میں سے ایک گواہ جواُن ہی میں سے ہو گااور اُن ہی کے خلاف گواہی دے گا ‘اور کھڑا کریں گے (اے نبیؐ !) آپ کو ان لوگوں کے خلاف گواہ بنا کر!‘‘
(آیت ۸۹
یاد ہو گا کہ اسی کی ہم مضمون ہے سورۃ النساء کی وہ آیت جسے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سن کر آنحضور کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے!

حکمت ِدین کے ضمن میں عہدِ اَلست کی یاد دہانی بھی اس سورۂ مبارکہ میں تاکیداً کرائی گئی ہے. چنانچہ آیت ۹۱ میں فرمایا: 
وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِ اللّٰہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمۡ ’’اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم( اللہ سے) معاہدہ کر چکے ہو‘‘. اور آیت ۹۲ میں ایک حددرجہ بلیغ تشبیہہ کے ذریعے اس عہد کو توڑنے پر ملامت کی گئی کہ: وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّتِیۡ نَقَضَتۡ غَزۡلَہَا مِنۡۢ بَعۡدِ قُوَّۃٍ اَنۡکَاثًا ؕ ’’اوراُس عورت کی مانند نہ بن جائو جس نے بڑی محنت و مشقت سے کاتا ہوا سوت خود ہی توڑ پھوڑ کر رکھ دیا‘‘.اور آیت۹۵میں ایک دوسرے انداز میں توجہ دلائی کہ:

’’اوراللہ کے عہد کے عوض حقیر سی قیمت قبول نہ کر لو‘یقیناجو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ تمہارے لیے کہیں بہتر ہے‘اگر تم سمجھو!‘‘

سورت کے آخر میں بنی اسرائیل کے ضمن میں دو حقائق کی جانب مجمل اشارے کیے گئے. ایک کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت کے ضمن میں کہ ان پر بعض سخت پابندیاں تادیباً و تعزیراً عائد کی گئی تھیں‘ اور دوسرے یومِ سبت کے بارے میں کہ یہ بھی ان پر یومِ جمعہ کی ناقدری کی پاداش میں مقرر کیا گیا تھا. یہ گویا تمہید ہے اُس تفصیلی ذکر کی جو یہود کی تاریخ کے ضمن میں سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے ہی رکوع میں آ رہا ہے . پھر اسی سلسلے میں 
غالباً یہود ہی کی توجہ کے لیے واضح کر دیا گیا کہ اب بھی تو بہ کے ذریعے اللہ کی رحمت کے دروازے کو کھٹکھٹایا جا سکتا ہے. فرمایا:

’’پھر تیرے ربّ کی رحمت دستگیری فرماتی ہے اُن کی جو نادانی سے (جذبات کی رَو میں بہہ کر) برائی کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں‘ لیکن پھر توبہ کرتے ہیں اور اپنی اصلاح کر لیتے ہیں‘ تو اس کے بعد تیرا ربّ یقینا حد درجہ بخشنے والا بھی ہے (اور) نہایت رحم والا بھی.‘‘ 
(آیت ۱۱۹)

اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْنَ!