تقریر نمبر۱۵: سورۂ بنی اسرائیل والکہف

نبی اکرم نے قرآن مجید کی بعض سورتوں کو آپس میں بہنیں قرار دیا ہے ‘جیسے مثلاً آپؐ نے فرمایا کہ: شَیَّـبَتْنِیْ ھُوْدٌ وَاَخْوَاتُھَا ’’مجھے سورۂ ہود اور اُس کی بہنوں نے بوڑھا کر دیا ہے!‘‘اس تشبیہہ کو ذرا اور آگے بڑھایا جائے تو واقعہ یہ ہے کہ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف آپس میں بالکل جڑواں بہنوں کے مانند ہیں. اس لیے کہ مصحف کے عین وسط میں واقع حکمت ِ قرآنی کے ان دو عظیم خزینوں کے مابین حد درجہ مشابہت و مماثلت پائی جاتی ہے. مثلاً قد و قامت ہی کو لیجیے‘تو دونوں ٹھیک بارہ بارہ رکوعوں پر مشتمل ہیں‘ اور تعدادِ آیات میں بھی صرف ایک کا فرق ہے‘ یعنی سورۂ بنی اسرائیل۱۱۱ آیات پر مشتمل ہے ‘اور سورۃ الکہف ۱۱۰ پر.پھر ایک کا آغاز تسبیح خداوندی سے ہوتا ہے اور دوسری کا حمد ِباری تعالیٰ سے.اور ان دونوں کے مابین نسبت کو آنحضور نے اپنے اس فرمان میں واضح فرما دیا کہ: اَلتَّسْبِیْحُ نِصْفُ الْمِیْزَانِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَؤُہُ (۱’’یعنی سبحان اللہ سے میزان نصف ہو جاتی ہے اور الحمد للہ سے (۱) رواہ مسند احمد‘ کتاب باقی مسند الآثار‘ باب احادیث رجال من اصحاب النبی . پُر ہو جاتی ہے.‘‘

پھر دونوں کی پہلی آیتوں میں آنحضور کا ذکر ہے اور دونوں میں آپ کی‘نسبت ِعبدیت ہی کو نمایاں کیا گیا ہے. واضح رہے کہ قرآن مجید میں جہاں کہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے آنحضور پر خصوصی شفقت و عنایت کا اظہار ہوتا ہے وہاں نسبت ِرسالت کے بجائے اسی نسبت ِعبدیت کو نمایاں کیا جاتا ہے. اس لیے بھی کہ اس سے شرک کا سدباب ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ نسبت ِعبدیت عروجی ہے اور اس کا رُخ اللہ کی جانب ہے اور نسبت ِ رسالت نزولی ہے او راس کا رُخ انسانوں کی جانب ہے. گویا نسبت ِعبدیت سیرالی اللہ اور سیر فی اللہ کی جامع ہے جب کہ نسبت ِرسالت عبارت ہے سیر عن اللہ الی اللہ سے. چنانچہ آنحضور کا اصل سرمایۂ افتخار یہی عبدیت ِکاملہ کا مقام ہے‘اگرچہ ہم آنحضور کی عبدیت کو اپنی عبدیت پر قیاس نہیں کر سکتے‘ بقول علامہ اقبال: ؎

عبد دیگر عبدہٗ چیزے دگر ما سراپا انتظار ‘ اُو منتظر!

اسی طرح ان دونوں سورتوں کی آخری آیتوں پر نگاہ ڈالیے تو نظر آئے گا کہ دونوں شرک کی نفی اور توحید کے اثبات کے ضمن میں حد درجہ عظمت کی حامل ہیں‘چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل کا اختتام ہوا اس آیت پر کہ: 

وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪
’’اورکہہ دو ساری تعریف اُس اللہ کے لیے ہے جس نے نہ کسی کو اپنا بیٹا بنایا‘نہ ہی بادشاہی اور اختیار میں کوئی اُس کا ساجھی ہے‘نہ ہی اُس کا کوئی دوست ا س کے کسی ضعف یا احتیاج کے سبب سے ہے‘اور اُس کی بڑائی کرو جیسا کہ اُس کی بڑائی کا حق ہے.‘‘

اور سورۃ الکہف کا اختتام ہوا اِن الفاظ پر کہ:

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿۱۱۰﴾٪
’’ کہہ دو (اے نبیؐ !)کہ میں بھی تمہارے جیسا بشر ہوں‘مجھ پر وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود تو بس ایک ہی معبود ِبرحق ہے‘تو جو کوئی اپنے ربّ سے ملاقات کا امیدوار ہو اُسے چاہیے کہ عمل کرے نیک اور شریک نہ کرے اُس کی عبادت میں کسی کو!‘‘ 

دونوں آیات کا آغاز فعل ِامر ’’قُلْ‘‘ سے ہوا ہے اور دونوں میں شرک کی نفی اور توحید کا اثبات ہے‘ اِس فرق کے ساتھ کہ ایک میں اللہ کو اولاد یا ضعف و احتیاج سے متصف کرکے اس کے مقامِ رفیع سے گرا کر مخلوق کی صف میں لا کھڑا کرنے کی مذمت کی گئی ہے تو دوسری میں مخلوق میں سے کسی کو اُٹھا کر اللہ کے برابر لے جا بٹھانے کا سد باب کیا گیا ہے‘ اور غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک کی جملہ انواع و اقسام میں ان دونوں میں سے کوئی ایک صورت ضرور پائی جاتی ہے. عجیب بات ہے کہ یہی عروجی و نزولی کیفیات ہیں جو اِن سورتوں کی پہلی آیات میں آنحضور کے ضمن میں بیان ہوئیں‘ یعنی سورۂ بنی اسرائیل کا آغاز ہوا معراج کے ذکر سے جس میں آنحضور کو بلند یوں پر لے جایا گیا‘ بفحوائے الفاظِ حدیث: 
ثُمَّ عُرِجَ بِیْ (۱اور سورۃ الکہف کا آغاز ہوا کلامِ الٰہی کے آنحضور پر نزول کے ذکر سے! یعنی: 

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱
’’ کل شکر اور تمام تعریف کا مستحق ہے اللہ جس نے نازل فرمائی اپنے بندے پر کتاب ِہدایت اور نہ رکھی اُس میں ہرگز کوئی کجی!‘‘

اب ایک نگاہ سورۂ بنی اسرائیل کی آخری اور سورۃ الکہف کی پہلی آیت پر دوبارہ ڈال لیجیے.سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت کا آغاز ہوا: 
’’وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ‘‘ کے الفاظ سے اور سورۃ الکہف کا آغاز ہوا ’’اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ‘‘ سے. گویا ایک میں امر ہے اور دوسری میں امتثالِ امر‘اور اس طرح ان دونوں سورتوں نے فی الواقع جڑواں بہنوں کی صورت اختیار کر لی. (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الصلاۃ‘ باب کیف فرضت الصلاۃ فی الاسرائ. اوّل و آخر کی ان مشابہتوں کے علاوہ حسب ذیل مزید اُمور بھی ان دونوں سورتوں میں مشترک ہیں. 

اوّلًا: دونوں کے تقریباً وسط میں قصۂ آدم و ابلیس کا اجمالی ذکر موجود ہے.

ثانیاً: دونوں 
’’اُولوالعزمِ مِنَ الرُّسل‘‘ یا ان کی قوموں پر عذابِ الٰہی کے ذکر سے خالی ہیں‘اگرچہ بستیوں کی تباہی و بربادی کا مجمل ذکر دونوں میں موجود ہے!

ثالثاً: دونوں میں قرآن مجید کے بارے میں فرمایا گیا کہ ہم نے اس میں انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہر ممکن اسلوب اختیار کر لیا ہے. چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا:

وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا لِلنَّاسِ فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ۫ (آیت ۸۹)
’’ہم نے اِس قرآن میں لوگوں کو ہر طرح سے سمجھایا ہے.‘‘

اور سورۃ الکہف میں فرمایا:

وَ لَقَدۡ صَرَّفۡنَا فِیۡ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنِ لِلنَّاسِ مِنۡ کُلِّ مَثَلٍ ؕ (آیت ۵۴
رابعاً:دونوں میں واضح کر دیا گیا کہ انسان اپنی شامتِ اعمال سے اپنے اوپر ہدایت کے راستے بند کرا لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قانونِ ہدایت و ضلالت کی زد میں آکر اُن کا حال یہ ہو جاتا ہے کہ:

وَّ جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ (بنی اسراء یل:۴۶

اور: 

اِنَّا جَعَلۡنَا عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ اَکِنَّۃً اَنۡ یَّفۡقَہُوۡہُ وَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرًا ؕ (الکہف: ۵۷
’’یقینا ہم نے ڈال دیے ہیں ان کے دلوں پر پردے کہ سمجھ نہ پائیں اسے اور پیدا کر دی ہے اُن کے کانوں میں گرانی (کہ سن نہ سکیں)!‘‘

خامساً: دونوں میں آنحضور کو خبردار کیا گیا ہے کہ اب جبکہ سردارانِ قریش‘تھک ہار کر مصالحت کی پیشکش پر اتر آئے ہیں‘مبادا آپ اپنی طبعی شرافت و مروّت کے باعث کسی درجے میں اُن کی جانب جھک جائیں. چنانچہ سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا: 

’’اور قریب تھاکہ یہ لوگ آپؐ کو فتنے میں ڈال کر اُس چیز سے ہٹا دیتے جو ہم نے آپ پر وحی کی ہے‘تاکہ آپؐ گھڑ کر منسوب کر دیتے ہماری جانب کوئی اور چیز اور تب وہ بنا لیتے آپؐ کو اپنا گاڑھا دوست! اور اگر ہم نے آپؐ کو جمائے نہ رکھا ہوتا تو کیا عجب کہ آپ اُن کی جانب کسی قدر جھک ہی جاتے. اگر ایسا ہوتا تو ہم آپؐ کو زندگی اور موت دونوں کے دُگنے عذاب کا مزا چکھاتے ‘ پھر آپ ؐ نہ پاتے ہمارے مقابل میں کوئی مددگار!‘‘ 
(آیات۷۳.۷۵

اورسورۃ الکہف میں فرمایا:
’’اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو (اور ان کی رفاقت کو غنیمت جانو) جو اپنے ربّ کی رضا جوئی میں صبح و شام اُس کو پکارتے رہتے ہیں‘ اور نہ ہٹیں آپؐ کی نگاہیں اُن سے حیاتِ دُنیوی کی زینتوں کی خاطر ‘اور نہ ہی کسی ایسے شخص کی باتوں پر دھیان دو جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر رکھا ہے اور جس نے اپنی خواہش نفس کی پیروی کر لی ہے اور جس کا معاملہ حد سے گزر گیا ہے!‘‘ 
(آیت ۲۸

واضح رہے کہ قرآن کے معروف اسلوب کے مطابق ان دونوں مقامات پر بظاہرخطاب آنحضور سے ہے ‘لیکن عتاب کا رُخ دراصل معاندین اور کفار کی جانب ہے. 

سادساً: دونوں سورتوں میں واضح کر دیا گیا کہ حق و باطل کی کش مکش کی شدت اور مصائب و مشکلات اور ابتلاء و آزمائش کے دور میں بندۂ مؤمن کا اصل سہارا کلامِ الٰہی ہے! چنانچہ سورۃ الکہف میں فرمایا:

وَ اتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنۡ کِتَابِ رَبِّکَ ؕ (آیت ۲۷)
’’اور پڑھتے رہا کرو جو نازل کیاگیا تمہاری جانب تمہارے ربّ کی طرف سے.‘‘

اور سورۂ بنی اسرائیل میں اس تلاوتِ قرآن کے لیے بہترین اوقات کی جانب رہنمائی فرما دی. یعنی: …وَ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ ؕ اِنَّ قُرۡاٰنَ الۡفَجۡرِ کَانَ مَشۡہُوۡدًا ﴿۷۸﴾’’اور (خصوصی اہتمام) کرو فجر کی قراء تِ قرآن کا‘ یقینا فجر کی قراء ت خاص حضوری کی کیفیات کی حامل ہوتی ہے‘‘.

اور: 

وَ مِنَ الَّیۡلِ فَتَہَجَّدۡ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ ٭ (آیت ۷۹
’’اور رات کا کچھ حصہ بھی اس قرآن کے ساتھ جاگتے ہوئے بسر کرو‘یہ تمہارے لیے خصوصی اضافہ ہے!‘‘

الغرض سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف میں مشابہت اور مماثلت کے بے شمار پہلو ہیں جن کا احاطہ اس مختصر گفتگو میں ممکن نہیں.

سورۂ بنی اسرائیل کے پہلے اور آخری رکوع میں‘اپنے نام کی مناسبت سے بنی اسرائیل کی تاریخ کے بعض اہم گوشوں کا ذکر ہے. چنانچہ پہلے رکوع میں ان کی تاریخ کے درمیانی دَور میں دو بار اُن کی سرکشی اور بغاوت اور اس پر اللہ کی سخت سزا و سرزنش کا ذکر کیا گیا اور اس کے بعد فرمایا گیا کہ اب پھر تم ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑے ہو. اگر قرآن پر ایمان لائو اور اسے اپنا رہنما بناؤ تو رحمت ِ خداوندی پھر تمہیں اپنے سائے میں لے لے گی. بصورتِ دیگر اللہ کے سخت سے سخت تر عذاب کے کوڑے تمہاری پیٹھ پر برستے رہیں گے.

عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ وَ جَعَلۡنَا جَہَنَّمَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ حَصِیۡرًا ﴿۸﴾اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ وَ یُبَشِّرُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ الَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ اَجۡرًا کَبِیۡرًا ۙ﴿۹﴾وَّ اَنَّ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡاٰخِرَۃِ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ﴿٪۱۰﴾ 
’’اُمید ہے کہ تمہارا ربّ تم پر رحم کرے گا ‘ لیکن اگر تم نے (اپنی سابقہ روش کا) اعادہ کیاتو ہم بھی پھر (اپنی سزا کا) اعادہ کریں گے. اور کافروں کے لیے ہم نے جہنم کو قید خانہ بنا رکھا ہے. یقینا یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے جو بالکل سیدھی ہے اور وہ ایسے اہل ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک کام کرتے ہیں کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے. اور جو آخرت کو نہیں مانتے ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب یارکر رکھا ہے.‘‘

اور آخری رکوع میں ایک جانب اُمت ِمسلمہ کی حیثیت سے اُن کی تاریخ کے آغاز کا ذکر ہوا‘ یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کی سرگزشت کا خلاصہ. واضح رہے کہ پہلے رکوع میں اس حقیقت کی جانب بھی اشارہ ہے کہ اُمت کی تأسیس کتابِ الٰہی ہی کی بنیاد پر ہوتی ہے. چنانچہ بنی اسرائیل نے ایک اُمت ِمسلمہ کی حیثیت اُسی وقت اختیار کی تھی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو تورات عطا ہوئی:
وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ.... (آیت ۲

’’اور ہم نے موسٰی ؑ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت (کا ذریعہ) بنا دیا.‘‘

اور دوسری طرف اُن کی اس آخری تباہی کی جانب اشارہ کر دیا گیا جو قیامت کے قریب حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کے بعد ہو گی. چنانچہ فرمایا کہ جب وہ وقت آئے گا تو ہم تمہیں ہر طرف سے سمیٹ کر لے آئیں گے: 

فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ الۡاٰخِرَۃِ جِئۡنَا بِکُمۡ لَفِیۡفًا ﴿۱۰۴﴾ؕ 
جس کی صورت اِس وقت نگاہوں کے سامنے ہے کہ کوئی غیبی ہاتھ ہے جو پوری دنیا سے یہودیوں کو کھینچ کھینچ کر فلسطین میں جمع کر رہا ہے‘ جسے بالآخر ان کا قبرستان بنا دیا جائے گا. ( وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ!) 

عجیب بات ہے کہ جس طرح پہلے رکوع میں یہود کے ذکر کے بعد قرآن کا ذکر ہوا‘ اسی طرح آخری رکوع میں بھی یہود کی تاریخ کے آغاز و انجام کی جانب اجمالی اشاروں کے بعد وارد ہوئے یہ انتہائی پُر ہیبت وپُرجلال الفاظ کہ:

وَ بِالۡحَقِّ اَنۡزَلۡنٰہُ وَ بِالۡحَقِّ نَزَلَ ؕ (آیت ۱۰۵
’’اوراس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے.‘‘
اب قوموں اور اُمتوں کی قسمتوں کا فیصلہ اسی کے ذریعے ہو گا. یہ گویا یہود سے وہی بات 
کہی جا رہی ہے جو سورۃ الطارق میں ایک عام قاعدہ کلیہ کے طور پر فرمائی گئی کہ:

اِنَّہٗ لَقَوۡلٌ فَصۡلٌ ﴿ۙ۱۳﴾وَّ مَا ہُوَ بِالۡہَزۡلِ ﴿ؕ۱۴﴾ 
یعنی یہ قرآن فیصلہ کن بات بن کر نازل ہوا ہے‘اسے ہنسی مذاق اور دل لگی کی بات نہ سمجھو.

اس کے علاوہ اس سورۂ مبارکہ کے تیسرے اور چوتھے رکوع میں ‘بقول حبر الامۃحضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تورات کے احکام عشرہ یعنی‘ 
The Ten Commandments انتہائی دل نشین پیرائے میں بیان کر دیے گئے تاکہ اہل کتاب جان لیں کہ اُصولاً قرآن مجید کی تعلیم بھی وہی ہے جو تورات کی تھی. اس طرح ایک جانب دعوت اور افہام و تفہیم اور دوسری طرف انذار اور تہدید و وعید دونوں اعتبارات سے سورۂ بنی اسراء یل تمہید بن گئی اُس مفصل گفتگو کی جو ہجرت کے بعد مدنی سورتوں میں یہود و نصاریٰ کو براہِ راست خطاب کر کے کی گئی!

خود ہجرت کی جانب ایک اشارہ اس سورۂ مبارکہ میں ایک دُعا کی صورت میں کیا گیا جو آنحضور کو تلقین فرمائی گئی‘یعنی:

وَ قُلۡ رَّبِّ اَدۡخِلۡنِیۡ مُدۡخَلَ صِدۡقٍ وَّ اَخۡرِجۡنِیۡ مُخۡرَجَ صِدۡقٍ وَّ اجۡعَلۡ لِّیۡ مِنۡ لَّدُنۡکَ سُلۡطٰنًا نَّصِیۡرًا ﴿۸۰﴾ 
’’اور (اے نبیؐ !) دعا کرو کہ اے میرے ربّ! مجھے داخل فرما عزت کا داخل کرنا اور باہر نکال عزت کا باہر نکالنا‘اور مجھے اپنے خاص خزانۂ فضل سے عطا فرما قوت و غلبہ جو (میرے مشن کی تکمیل میں) معاون و مددگار ہو!‘‘

یہ ایک نہایت اعلیٰ مثال ہے اس کی کہ خاصانِ بارگاہِ ربانی کو دعا کے الفاظ بھی خداخود تلقین فرماتا ہے ‘اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اُس دُعا کی قبولیت کا فیصلہ پہلے ہی ہوچکاہوتا ہے.

ایک اور اہم مضمون سورۂ بنی اسرائیل میں رُوح سے متعلق سوال اور اس کا جواب ہے جو نا سمجھوں یا کج بحثی کے خواہش مند لوگوں کے حق میں تو جوابِ مسکت کی حیثیت رکھتا ہے اور حقیقی علم و معرفت کے متلاشی لوگوں کے لیے حقائق و معارف کے ایک 
بحرِبیکراں کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے. رُوح کے بارے میں اس سوال اور اس کے جواب سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ بنی اسرائیل اور سورۃ الکہف ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں ہیں‘ اس لیے کہ شانِ نزول کی روایات کی رُو سے یہود کے سکھانے سے قریشِ مکہ نے تین سوالات آنحضور کے سامنے امتحاناً پیش کیے تھے‘ایک یہی کہ رُوح کی حقیقت کیا ہے؟ دوسرے یہ کہ اصحاب ِ کہف کا واقعہ کیا ہے؟ اور تیسرے یہ کہ ذوالقرنین کون تھے؟ جن میں سے پہلے کا جواب ہے سورۂ بنی اسرائیل میں اور بقیہ دو کا جواب ہے سورۃ الکہف میں.

سورۃ الکہف کے بارے میں متعدد مستند احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم نے اس پوری سورت کو بالعموم اور اس کی ابتدائی اور آخری آیات کو بالخصوص دجالی فتنے کے اثرات سے بچنے کے لیے مفید قرار دیا ہے. دجل عربی زبان میں اسے کہتے ہیں کہ کسی شے کی حقیقت پر کسی فریب کا پردہ ڈال دیا جائے. سورۃ الکہف کے پہلے اور آخری رکوع کے مطالعے سے اس دجل کی تعیین ہو جاتی ہے ‘اور وہ یہ کہ اس دنیا اور اُس کے سازو سامان کی چمک دمک سے انسان کی نگاہیں خیرہ ہو کر رہ جائیں اور وہ خدا اور آخرت دونوں کو بھول جائے. چنانچہ پہلے رکوع میں فرمایا:

اِنَّا جَعَلۡنَا مَا عَلَی الۡاَرۡضِ زِیۡنَۃً لَّہَا لِنَبۡلُوَہُمۡ اَیُّہُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ﴿۷
’’یقینا ہم نے روئے زمین پر جو کچھ ہے اُسے اُس کا سنگھار اور زینت و آرائش بنا دیا ہے‘ تاکہ ہم لوگوں کا امتحان لیں کہ کون اُن میں سے اچھے عمل کرتا ہے!‘‘

یعنی کون اُس کی ظاہری سج دھج سے مبہوت ہو کر رہ جاتا ہے اور کون اس عروسِ ہزار داماد کی اصل حقیقت کو پا کر اپنی نگاہوں کو اللہ کی رضا طلبی اور آخرت کی فوز و فلاح پر ہی جمائے رکھتا ہے. اور آخری رکوع میں بڑے بلیغ پیرائے میں پہلے سوال کیا کہ:

قُلۡ ہَلۡ نُنَبِّئُکُمۡ بِالۡاَخۡسَرِیۡنَ اَعۡمَالًا ﴿۱۰۳﴾ؕ
’’(اے نبیؐ ! ان سے) کہو کہ کیا ہم بتائیں تمہیں کہ سب سے زیادہ خسارے اور گھاٹے میں رہنے والے کون ہیں؟‘‘ اور پھر خود ہی جواب ارشاد فرمایا کہ:

اَلَّذِیۡنَ ضَلَّ سَعۡیُہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ ہُمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّہُمۡ یُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا ﴿۱۰۴
’’وہ لوگ جن کی سعی و جہد اور بھاگ دوڑ اِس حیاتِ دُنیوی ہی میں بھٹک کر اکارت چلی گئی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں (ہماری محنتیں سپھل ہو رہی ہیں).‘‘

اوّل و آخر کی ان دو آیات کو اس سورۂ مبارکہ کے عمود اور مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہے جس کے گرد اُس کے تمام مباحث گھومتے ہیں. چنانچہ پہلے رکوع سے متصلاً بعد ہے اصحاب ِ کہف کا واقعہ اور آخری رکوع سے متصلاً قبل ہے حضرت ذوالقرنین کا ذکر‘اور دونوں کا حاصل یہ ہے کہ اہل ایمان کو اس دنیا میں ہر قسم کے حالات سے سابقہ پیش آ سکتا ہے‘ اصحابِ کہف کی سی کسمپرسی اور بے یارومددگار ہونے کی حالت سے بھی اور حضرت ذوالقرنین کی سی حکومت و سلطنت اور سطوت و شوکت سے بھی. لیکن بندہ ٔ مؤمن کا کام یہ ہے کہ ہر حال میں صابر و شاکر رہے اور ہر حالت کو ابتلاء و آزمائش پر محمول کرے. درمیان میں ایک تو مکالمہ نقل ہوا ایک خود آگاہ وخدا مست مردِ عارف اور ایک دنیا کی ظاہری زیبائش و آرائش سے دھوکہ کھائے ہوئے مغرور شخص کے مابین جس سے اسی دجل کی حقیقت ایک تمثیلی پیرائے میں مزید واضح کی گئی‘ اور دوسرے وہ واقعہ بیان ہوا جو حضرت موسیٰ اور حضرت خضر علیہما السلام کے مابین پیش آیا جس سے اسی تصویر کا دوسرا رُخ واضح کر دیا گیا کہ جس طرح اس دنیا کی دولت و ثروت اور عزت ووجاہت بے حقیقت ہے اسی طرح یہاں کے مصائب و آلام بھی سراب ہی کی حیثیت رکھتے ہیں‘ بلکہ بسا اوقات وہی چیز انسان کے حق میں موجب خیر وبرکت ہوتی ہے جسے وہ اپنی لا علمی اور نا سمجھی میں باعث ِخسران و نقصان و موجب ذلت و رسوائی سمجھ رہا ہوتا ہے. مزید برآں ایک تو آنحضور سے خطاب کر کے فرمایا کہ قریش کے صاحب ِ دولت و ثروت سرداروں اور چوہدریوں کی جانب زیادہ التفات نہ فرمائیں‘ مبادا کسی کو یہ گمان 
ہو کہ آپ بھی دنیا کی زینت اور چمک دمک سے مرعوب ومتأثر ہو گئے ہیں. اور دوسرے ایک نہایت فصیح و بلیغ تمثیل سے حیاتِ دُنیوی کی اصل حقیقت کو کھول کر بیان کر دیا گیا. جس کے ضمن میں وارد ہوئے وہ نہایت سادہ مگر حد درجہ دل نشین الفاظ کہ: 

اَلۡمَالُ وَ الۡبَنُوۡنَ زِیۡنَۃُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ الۡبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیۡرٌ عِنۡدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیۡرٌ اَمَلًا ﴿۴۶﴾ 

’’(لوگو! )یہ مال اور اولاد تو بس اس حیاتِ دُنیوی کی زینت و آرائش ہیں‘اور تمہارے ربّ کی نگاہوں میں وقعت کے حامل اور اُمید کے اعتبار سے بھروسے کے قابل تو صرف وہ نیک اعمال ہیں جنہیں دوام بھی ہے اور بقاء بھی.‘‘

اور واقعہ یہ ہے کہ یہی ہے وہ سو باتوں کی ایک بات کہ اگر دل میں جم جائے تو انسان کی زندگی کا نقشہ یکسر بدل کر رہ جائے اور وہ بجائے اس دُنیا کی چمک دمک سے مرعوب و مبہوت ہونے اور اس میں گم ہو کر رہ جانے کے‘اللہ ہی کو اپنا محبوب و مطلوب اور آخرت ہی کو اپنی منزلِ مقصود جانتے ہوئے اس دنیا سے ایسے گزر جائے جیسا کہ آنحضور نے فرمایا کہ: 
کُنْ فِی الدُّنْیَا کَاَنَّکَ غَرِیْبٌ اَوْ عَابِرُ سَبِیْلٍ (۱’’دُنیا میں ایسے رہو جیسے اجنبی یا راہ چلتامسافر‘‘.اللہ ہمیں اس کی ہدایت و توفیق عطا فرمائے. 

وَآخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن! (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الرقاق‘ باب قول النبی کن فی الدنیا کانک غریب اوعابر سبیل.