ایک بات تو بالکل آغاز ہی میں سیرت النبی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے واقعات و حالات کے حوالوں (References) کے بغیر اصولی طور پر جان لینی چاہیے کہ انقلاب کسی بھی نوع کا ہو اس کے لئے چھ مراحل طے کرنا ناگزیر ہوتا ہے. یہ بات سیرت ِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے معروضی مطالعے سے حد درجہ واضح ہے.
البتہ یہ ضرور ہے کہ سیرت ِ مطہرہ کے دوران جو حالات و واقعات پیش آئے انہیں خاص سے عام کر کے یعنی generalize کر کے جو اصول و مبادی مستنبط (۱) ہوتے ہیں ان کی روشنی میں انقلابی عمل کے مراحل و مدارج اور لوازم طے کئے جائیں گے. پھر ہم دیکھیں گے کہ اس مستنبط خاکے میں رنگ بھرنے کے لئے ہمیں سیرت مبارکہ ﷺ سے جو رہنمائی ملتی ہے وہ کیا ہے؟
اور تیسری بات جو عملی اعتبار سے بہت ضروری ہے، یہ ہو گی کہ ہمارے حالات اور نبی اکرم ﷺ کے دورِ سعید کے حالات میں بہرحال چودہ سو برس سے کچھ زیادہ ہی مدت کا فصل ہے. اس دوران حالات میں بہت کچھ تغیر و تبدل ہوا ہے اور انسان کے تمدنی و عمرانی تصورات میں بہت کچھ ارتقاء ہوا ہے. پھر ایک نمایاں ترین فرق یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا پورا انقلابی عمل ایک خالص مشرکانہ وکافرانہ ماحول میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا جبکہ ہمیں اسلامی انقلاب کے لئے جو کام کرنا ہے وہ مسلمانوں میں کرنا ہے، کافروں میں نہیں. لہذا ان حالات کی بنا پر ہمیں غور کرنا ہو گا کہ جو طریق کار ہمیں سیرت النبی ﷺ میں ملتا ہے آیا بعینہٖ (۱) اخذ کیا ہوا وہی اختیار کرنا لازم ہے یا اس طریق کار میں ہمیں درپیش حالات کے فرق و تفاوت کی وجہ سے کہیں کچھ اجتہاد کرنا ہو گا!