کامل انقلاب کی واحد مثال: انقلابِ محمدیﷺ

انقلاب کے یہ سات مراحل (۳+۳+۱) میں نے سیرت محمدی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) سے اخذ کئے ہیں، اس کے سوا میرے نزدیک ان کا کوئی اور مأخذ نہیں ہے کیونکہ (۱) برآمد کرنا (۲Balshevik کامل اور ہمہ گیر انقلاب کا منہاج اور نقشہ صرف سیرت محمدی  سے ہی مل سکتا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ تاریخِ انسانی میں کامل انقلاب (Total Revolution) صرف اور صرف حضرت محمد عربی  نے برپا کیا ہے. باقی دُنیا کے جو انقلابات مشہور ہیں وہ جزوی انقلاب تھے. فرانس کے انقلاب سے صرف سیاسی ڈھانچہ بدلا، معاشی نہیں بدلا، معاشرتی نہیں بدلا، روحانی و اخلاقی نہیں بدلا، عقائد نہیں بدلے. روسی انقلاب سے صرف معاشی ڈھانچہ بدلا، سیاسی ڈھانچہ میں ایک جزوی تبدیلی یہ آئی کہ صرف ایک پارٹی کے نمائندوں پر مشتمل حکومت کا نظام قائم ہو گیا… البتہ انسانی زندگی کے چھ کے چھ گوشوں یعنی عقائد، عبادات اور سماجی رسوم کے علاوہ معاشرتی نظام، معاشی و اقتصادی نظام اور سیاسی نظام کو تاریخ انسانی میں صرف ایک مرتبہ بدلا گیا ہے اور یہ بدلا ہے حضرت محمد نے. پس جسے کامل، ہمہ گیر، گھمبیر اور Total Revolution کہا جائے تو وہ ہے ہی صرف ایک، اور وہ ہے رسول آخر الزماں حضرت محمد  کا برپا کیا ہوا انقلاب… 

حضور  کے لائے ہوئے انقلاب میں ڈھونڈے سے بھی کوئی چیز ایسی نہیں ملے گی جو یکسر تبدیل ہو کر نہ رہ گئی ہو. مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ (الفتح:۲۹’’محمد رسول اللہ  کا اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں‘‘ کی جدوجہد، سعی و کوشش، محنت و مشقت اور ایثار و قربانی کے نتیجہ میں لکھو کھا مربع میل زمین کے ایک ملک کے رہنے والوں کی زندگیوں میں ایک ایسا انقلاب عظیم برپا ہو گیا کہ ان کی سوچ بدل گئی، ان کا فکر بدل گیا، ان کے عقائد بدل گئے، ان کی اقداربدل گئیں، ان کے عزائم بدل گئے، ان کے مقاصد بدل گئے، ان کی آرزوئیں بدل گئیں، ان کی تمنائیں بدل گئیں، ان کے دن بدل گئے، ان کی راتیں بدل گئیں، ان کی صبحیں بدل گئیں، ان کی شامیں بدل گئیں، ان کی زمین بدل گئی، ان کا آسمان بدل گیا. یہاں تک کہ اگر پہلے انہیں زندگی عزیز تھی تو اب موت عزیز تر ہو گئی. جو رہزن تھے وہ رہبر بن گئے. جو اُمّی محض تھے وہ متعدد علوم و فنون کے موجدبن گئے. جو بے شمار ذمائم اخلاق (۱میں مبتلا تھے وہ مکارمِ اخلاق (۲کے معلم و داعی بن گئے. جو زانی اور نفس پرست تھے، وہ (۱) برے اَخلاق (۲) قابل تعریف اَخلاق عصمت و عفّت کے محافظ بن گئے. جو بے قید حصولِ معاش کے عادی اور اِسراف و تبذیر کے خوگر تھے وہ مال و دولت کے امین بن گئے… یہ تھی گھمبیرتا، ہمہ گیریت اوربرکت اُس انقلاب کی جو محمد عربی  نے برپا فرمایا.

پھر صرف یہی بات قابل ذکر نہیں ہے کہ کسی ایک انسانی زندگی میں انقلابی عمل کی تکمیل دُنیا میں صرف ایک بار ہی ہوئی ہے، بلکہ سب سے زیادہ اہم اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ انقلابی عمل کے یہ تمام سات مراحل آپ کو ایک فردِ واحد کی زندگی میں نظر آجائیں، یہ ممکن ہی نہیں. اس کی کوئی نظیر ہی نہیں سوائے خاتم النبیین سید المرسلین جناب محمد  کے.

ایک فردِ واحد۶۱۰ عیسوی میں ایک انقلابی دعوت لے کر کھڑا ہوتا ہے اور ۶۳۰ء میں یعنی کل بیس برس میں عرب میں انقلاب تکمیل پا جاتا ہے. باقی دو سال اس انقلاب کی توسیع کے عمل میں گزرے ہیں… ۶ھ میں صلح حدیبیہ کے بعد مختلف سربراہانِ مملکت کو دعوتی خطوط ارسال کئے گئے تھے اور سفارتیں بھیجی گئی تھیں. جمادی الاولی ۸ ہجری میں جنگِ موتہ ہوئی جس میں سلطنت ِ روما جیسی وقت کی سپر طاقت کے ساتھ مسلح تصادم ہوا. رمضان المبارک ۸ ہجری میں مکہ فتح ہو گیا. اس کے بعد ۹ھ میں خود نبی اکرم  کی قیادت میں سفر تبوک ہوا. اس موقع پر تیس ہزار جان نثار حضور  کے جِلَو (۱میں تھے… پھر یہ کہ حضور نے وفات سے چند دن قبل حضرت اسامہ بن زیدرضی اللہ عنھما کی سربراہی میں شام کی ایک مہم کے لئے لشکر ترتیب فرمایا. وہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہوا تھا کہ مرض نے شدت اختیار کی اور ربیع الاوّل ۱۱ھ میں نبی اکرم  نے ’’اَلرَّفِیْقُ الْاَعْلٰی‘‘ کی طرف مراجعت فرمائی.

اندازہ کیجئے کہ اکیس بائیس برس کے لگ بھگ مختصر ترین عرصہ میں نبی اکرم  نے ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہتی انقلاب کی ازا بتداء تا انتہاء بنفس نفیس تکمیل فرما دی، جس کی دُنیا میں کوئی نظیر نہ پہلے موجود تھی نہ تاقیام قیامت ملے گی. دُنیا کے دوسرے دو انقلابات مشہور ہیں یعنی انقلابِ فرانس اور انقلاب روس. ایک طرف تو یہ انقلابات جزوی تھے اور دوسری طرف قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان انقلابات کا فکر دینے والے کوئی اور تھے اور انقلاب برپا 
(۱) معیت کرنے والے کوئی اور… پھر انقلابی فکر پیش ہونے اور اس کے نتیجہ میں عملاً انقلاب بپا ہونے میں اچھا خاصا زمانی فصل ہے. انقلاب ِ فرانس اُس فکر کے نتیجہ میں رونما ہوا جو وولٹیئر اور روسو جیسے بے شمار مصنفوں کی کتابوں کے ذریعے کافی عرصہ تک پھیلتا رہا… اسی طرح انقلابِ روس کی اساس (۱کارل مارکس کی کتاب ’’داس کیپیٹل‘‘ پرقائم ہوئی لیکن خود مارکس کی زندگی میں ایک گاؤ ں میں بھی انقلاب کے عملاً برپا ہونے کا امکان تک پیدا نہ ہو سکا. مارکس جرمنی کا رہنے والا تھا لیکن انقلاب روس میں آیا اور اس کی موت کے قریباً پچاس سال بعد لینن جیسی فعال شخصیت کے ہاتھوں آیا. اور وہ بھی اس لئے کہ روس کے داخلی معاملات اس حد تک بگڑ گئے تھے کہ وہ بالشویک انقلاب کے لئے سازگار ہو گئے تھے. مگر اکیس بائیس برس کے لگ بھگ ایک مختصر سے عرصہ میں ایک عالمگیر انقلاب کی تکمیل جس میں انقلاب کے جملہ مراحل کی تکمیل دُنیا کی تاریخ میں صرف ایک بار ہوئی وہ حضرت محمد  کے دست ِ مبارک سے ہوئی ہے. بعد میں رونما ہونے والے انقلاب میں اصل راہنمائی سیرتِ مطہرہ  سے ہی لی گئی ہے. بقول علامہ اقبال ؎ 

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آنکہ از خاکش بروید آرزو!
یا زنور مصطفی،  اُو را بہاست!!
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی،  است

یعنی نبی اکرم  کے سعید و مبارک دَور کے بعد دُنیا نے جو کچھ سیکھا ہے وہ حضور  سے ہی سیکھا ہے. یا پھر انسان ٹھوکریں کھا کھا کر چاروناچار اسی منزل کی طرف پیش قدمی کر رہا ہے کہ جس منزل پر پہنچایا تھا محمد رسول اللہ  نے… لہذا یاد رہے کہ انقلابی عمل کے مراحل کے استنباط (۲کے لئے میرا ماخذ صرف اور صرف سیرتُ النبی ہے (علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام). (۱) بنیاد (۲) اخذ کرنا