اب ہم سیرت النبی  کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہاں یہ چھ قدم کس ترتیب سے اُٹھائے گئے. پہلا قدم ہوتا ہے ایک انقلابی نظریہ، فکر اور فلسفہ سے متعلق. انقلابِ محمدی  اور دوسرے انقلابات کے مابین اس اعتبار سے فرق کیا ہے؟ یہ کہ دنیا کے دونوں مشہور و معروف انقلابات کے لئے نظریہ، فکر اور فلسفہ انسانی ذہنوں کی پیداوار تھا، جبکہ جناب محمد رسول اللہ  کو وہ نظریہ، فکر اور فلسفہ وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا. پہلا عظیم ترین فرق تو یہ ہے کہ یہ نظریہ ہے’’توحید‘‘. کامل ترین اور خالص ترین توحید، جس کی بنیاد ہے قرآن حکیم. اس قرآن کے ذریعہ سے یہ انقلابی نظریہ لوگوں کے سامنے آنا شروع ہوا. اس حقیقت کو نہایت سادہ اور سلیس الفاظ میں مولانا حالی نے بیان کیا ہے ؎

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
اور نہایت پُرشکوہ الفاظ میں بیان کیا علامہ اقبال نے ؎
در شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
(۱

انقلابی نظریہ توحید کی بنیاد قرآن ہے… یعنی دعوت قرآن کی، تبلیغ قرآن کی، انذار قرآن سے، تبشیر قرآن سے، تذکیر قرآن سے، حتیٰ کہ تزکیہ یعنی تربیت بھی قرآن سے… حاصل کلام یہ کہ نبی اکرم کی دعوت کا مرکز و محور اور منبع و سرچشمہ ہے قرآنِ مجید، فرقان حمید!!

دوسری بات ایک بہت اہم نکتہ ہے جسے لوگ بالعموم سمجھ نہیں پاتے. وہ یہ کہ حضور  کی دعوت کو جہاں تک ’’نظریہ‘‘ کہا جائے گا تو اس انقلابی نظریہ کے تین حصے شمار کئے جائیں گے: (۱) توحید(۲) رسالت (۳) معاد یا آخرت. ان میں سے جہاں تک ’’نظام‘‘ کا تعلق (۱) ترجمہ: آپ  نے غارِ حرا میں خلوت اختیار کی اور قوم وآئین وحکومت کا نظریہ لے کر آئے. ہے وہ درحقیقت نظریۂ توحید پر ایمان لانے سے ہے. آخرت پر ایمان انسان کی سیرت و کردار کی تربیت اور صحیح تعمیر کی بنیاد بنتا ہے. نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ اصل میں اس تربیتی مرحلہ کی چیزیں ہیں.

اشخاص کی سیرت و کردار کو اس خاص سانچہ میں ڈھالنا کہ جس سانچہ کے ڈھلے ہوئے کارکنوں کے ذریعہ سے اسلامی انقلاب آ سکے، اس تربیت کا پروگرام ان چیزوں پر مشتمل ہے. دل میں چھپے ہوئے اَمراض اور روگوں کا مداوا اور علاج بھی قرآن اور اس تربیتی پروگرام ہی سے ہوتا ہے جس کے لئے دینی اصطلاح تزکیہ ہے. الغرض ایمان بالآخرۃ انسان کے جذبۂ عمل کو متحرک (Motivate) کرنے کا نہایت مؤثر عامل ہے…… جبکہ رسالت پر ایمان کا تعلق قانون سے ہے. حضور  کو دل و جان سے رسول تسلیم کرنے اور آپ  کی دی ہوئی تمام خبروں کی تصدیق کا نام ہی دراصل ایمان ہے. اس کے بغیر ہم نہ توحید کو صحیح معنوں میں جان سکتے ہیں، نہ آخرت کو مان سکتے ہیں، اور نہ ہی اعمالِ صالحہ اور افعال سیّئہ (۱کو صحیح طور پر پہچان سکتے ہیں. یہی مطلب و مفہوم اور مقصود ہے نبی اکرم کے اس ارشادِ مبارک کا:

لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبِعًا لِّمَا جِئْتُ بِہٖ (شرح السنۃ للبغوی)
’’تم میں سے کوئی شخص مؤمن ہو ہی نہیں سکتا جب تک اس کی خواہشِ نفس اس ہدایت کے تابع نہ ہو جائے جو میں لے کر آیا ہوں‘‘.

اس توحید کا ایک اعتقادی پہلو ہے. یعنی کسی اور کی عبادت اور پرستش نہ ہو سوائے اللہ کے 
لَا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ کسی کو رکوع و سجدہ نہ کیا جائے سوائے اللہ کے. کسی سے دعا نہ کی جائے سوائے اللہ کے لَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا اس کا کوئی ند، اسکی کوئی ضد، اس کی کوئی اولاد نہیں ہے. اس کا کوئی کفو، اس کا کوئی ہم سر نہیں فَلَا تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ اَنۡدَادًا … اور قُلۡ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ ۚ﴿۱﴾اَللّٰہُ الصَّمَدُ ۚ﴿۲﴾لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَ لَمۡ یُوۡلَدۡ ۙ﴿۳﴾وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ٪﴿۴﴾ نذر و نیاز، قربانی الغرض کوئی بھی تعبّدی عمل اس کے سوا کسی اور کے لئے (۱) برے افعال نہیں ہے اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ . یہ تمام امور یقینا عقیدۂ توحید کے مظاہر اور اس کے لوازم ہیں… ان میں ذرا سی اُونچ نیچ اور کمی بیشی ہوئی تو توحید ختم ہوئی اور شرک لازم ہو گیا. پھر تو معاملہ وہ ہو جائے گا جس کی طرف سورۂ یوسف کی اس آیت مبارکہ میں توجہ دلائی گئی ہے وَ مَا یُؤۡمِنُ اَکۡثَرُہُمۡ بِاللّٰہِ اِلَّا وَ ہُمۡ مُّشۡرِکُوۡنَ ﴿۱۰۶﴾ … الغرض توحید کا پوری انسانی زندگی پر محیط ہونا ایمان کا لازمی تقاضا ہے… توحید کی چھاپ تو پوری زندگی پر ہونی لابُدّمنہ ہے… لیکن اس وقت کی اور اس دور کی شدید ضرورت ہے کہ عقیدۂ توحید نے اجتماعی زندگی کے ان تین گوشوں یعنی معاشرتی، معاشی اور سیاسی گوشوں میں جو عظیم انقلاب برپا کیا ہے، اسے نہایت وسیع پیمانے پر محکم دلائل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے. اسی کے ذریعہ سے موجودہ باطل اور مادّہ پرستانہ تمام نظریات اور نظام ہائے زندگی کا ابطال اور اسلام کی حقانیت کا احقاق ہو سکے گا.