یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو؟
یہ ساری تقسیمیں غلط ہی نہیں بلکہ موجب فساد بھی ہیں. کوئی اُونچا اور کوئی نیچا نہیں. اس لئے کہ سب کا خالق ایک اللہ ہے اور سب ایک انسانی جوڑے آدم اور حوا کی اولاد ہیں. تو کون اُونچا اور کون نیچا! کون اعلیٰ اور کون ادنی ٰ! نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع میں اعلان عام فرما دیا:
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ، اَلاَ اِنَّ رَبَّـکُمْ وَاحِدٌ، وَاِنَّ اَ بَاکُمْ وَاحِدٌ، (۱) زمانے کا گزرنا َ لَا فَضْلَ لِعَرَبِیٍّ عَلٰی اَعْجَمِیٍّ وَلاَ لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَ لَا لِاَحْمَرَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا لِاَسْوَدَ عَلٰی اَحْمَرَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی (مسند احمد)
’’لوگو! آگاہ رہو کہ تمہارا رب ایک ہے اور تمھارا باپ بھی ایک ہے. جان لو کہ نہ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر. نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے اور نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر. بنائے فضیلت صرف تقویٰ ہے‘‘.
فضیلت اگر کوئی ہے تو وہ خدا ترسی اور اعلیٰ سیرت و کردار کی بنا پر ہے اور وہ معاملہ آخرت میں ہو گا. تمام انسان اس دُنیا میں کامل سماجی مساوات رکھتے ہیں.
غور کیجئے کہ اس سماجی و معاشرتی مساوات کا تعلق بھی توحید ہی سے ہے. چونکہ تمام انسانوں کا پیدا کرنے والا اللہ ہے لہذا سب برابر ہو گئے. اگر کوئی چھوٹا خدا کسی ایک کا پیدا کرنے والا ہوتا اور کوئی بڑا خدا کسی دوسرے کا پیدا کرنے والا ہوتا تو اُونچ نیچ ہو جاتی. یا جیسے ہندوؤ ں میں اُونچ نیچ کا یہ تصور ہے کہ برہمن تو اِیشور کے سر سے پیدا ہوا ہے اور شودر اُس کے پاؤ ں سے پیدا ہوا ہے. انہوں نے ایک ایشور ہی میں یہ تقسیم کر دی. توحید یہ ہے کہ ایک ہی اللہ سب کا پیدا کرنے والا ہے اور سب انسان ایک ہی انسانی جوڑے کی اولاد ہیں:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی وَ جَعَلۡنٰکُمۡ شُعُوۡبًا وَّ قَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوۡا ؕ اِنَّ اَکۡرَمَکُمۡ عِنۡدَ اللّٰہِ اَتۡقٰکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۳﴾ (الحجرات:۱۳)
’’لوگو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھارے (جدا جدا) خاندان، قبیلے (اور قومیں) بنائیں تو باہم شناخت اور تعارف کے لئے (نہ کہ فخر و تکبر کے لئے) بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت دار تو اللہ کے نزدیک وہی ہے جو سب سے زیادہ خدا ترس اور پرہیزگار ہے. بے شک اللہ (سب کچھ) جاننے والا اور باخبر ہے‘‘. الغرض اسلام کا انقلابی نظریہ ہے توحید…… اس کی دعوت مشتمل ہے قرآن مجید پر. لہذا دعوت، تبلیغ ، تذکیر، انذار اور تربیت و تزکیہ، یہ سب کام ہوں گے بذریعہ قرآن… ان تمام کاموں کے لئے ’’انذارِ آخرت‘‘ نہایت اہم ہے. لیکن یہ انذارِ آخرت دراصل انسان کی انفرادی اعلیٰ سیرت کی تعمیر کے لئے بنیادی پتھر ہے، جس پر ایک بندۂ مومن کا کردار اور سیرت پروان چڑھے گی. آخرت پر یقین، محاسبہ پر یقین، جزا و سزا پر یقین کے بغیر اس سیرت کی تعمیر محال ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے… اس تعمیر سیرت کے پروگرام کی تقویت کے لئے ذرائع کے طور پر نماز ہے، روزہ ہے، حج اور زکوٰۃ ہے، دوام ذکر الٰہی ہے. یہ تمام چیزیں درحقیقت انسان کی انفرادی سیرت و کردار کی تعمیر کے لئے ہیں… البتہ انقلابی نظریۂ توحید کے یہ تین لوازم و نتائج ہیں جو اوپر بیان ہوئے. پس اسلامی انقلاب کے لئے اصل میں ان چیزوں کی اہمیت کو واضح، نمایاں اور اُجاگر کرنا ہو گا. اگر ان کو نظر انداز کر کے زور ہو جائے محض نماز اور روزے وغیرہ پر تو درحقیقت انقلابی عمل کا آغاز نہیں ہو گا. کچھ مذہبی اور اخلاقی اصلاح کا کام ہو جائے گا، کچھ لوگ اچھے مسلمان بن جائیں گے، اور ایسے دوسرے کچھ اچھے کام ہو جائیں گے، اس میں کوئی شک نہیں. لیکن انقلابی عمل کا آغاز ہی نہیں ہو سکے گا.