رکھو کہ تم اپنے ایمان وتوکل میں پختہ ہو جاؤ . جب پختہ ہو جاؤ تو سلطنت جم پر خود کو دے مارو.
(۲) اس موضوع پر ارمغانِ حجاز میں علامہ اقبال کے یہ اشعار بھی نہایت موزوں ہیں ؎
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
ترے دین و ادب سے آ رہی ہے بوئے رہبانی
یہی ہے مرنے والی امتوں کا عالم پیری
شیاطینِ ملوکیت کی آنکھوں میں ہے وہ جادو
کہ خود نخچیر کے دل میں ہو پیدا ذوقِ نخچیری!
(مرتب) حزب اللہ کے سامنے ہدف کیا ہے؟ اگر ہدف اسلامی انقلاب ہے تو پھر لازماً یہ غور کرنا ہو گا کہ اس کے لئے کس قسم کے کارکن درکار ہیں! وہ نقشہ کیا ہے جس کے مطابق کارکنوں کو جِدّوجہد کرنی ہے! ظاہر ہے کہ کسی مہم کے لئے ایک ہدف (Target) معیّن کیا جاتا ہے، پھر اسی کی مناسبت سے اسباب ووسائل مہیا کئے جاتے ہیں. یہ بھی طے کرنا ہوتا ہے کہ اس مہم کے لئے کس نوع کے اوصاف اور صلاحیتیں رکھنے والے کارکن اور کس قسم کی سیرت و کردار کے لوگ درکار ہیں. اس سلسلہ میں بھی قرآن پاک سے واضح راہنمائی ملتی ہے. ارشادِ باری تعالیٰ ہے کُوۡنُوۡا رَبّٰنِیّٖنَ (آل عمران:۷۹) ’’اللہ والے بنو‘‘. جب تک اللہ والے وجود میں نہیں آئیں گے، اسلامی انقلاب کا کوئی سوال نہیں. محض عسکری تربیت ہو، محض ڈسپلن کی عادت ہو اور محض چلت پھرت اور حرکت ہو، تو ان چیزوں سے انقلاب نہیں آتا.
خواہ ان چیزوں کی وجہ سے کسی خاص وقت میں کوئی سماں بندھ جائے اور لوگ مرعوب ہو جائیں… لیکن اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا. اس کام کے لئے اللہ والے درکار ہیں، یعنی رَ بّٰنِیُّوۡنَ اور رِ بِّیُّوۡنَ .... فرمایا گیا وَ کَاَیِّنۡ مِّنۡ نَّبِیٍّ قٰتَلَ ۙ مَعَہٗ رِبِّیُّوۡنَ کَثِیۡرٌ ۚ فَمَا وَہَنُوۡا لِمَاۤ اَصَابَہُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ مَا ضَعُفُوۡا وَ مَا اسۡتَکَانُوۡا ؕ (آل عمران:۱۴۶) ’’اور کتنے ہی انبیاء علیہم السلام ایسے گزرے ہیں جن کے ساتھ مل کر ’’ رِ بِّیُّوۡنَ ‘‘ یعنی اللہ والوں نے جنگ کی ہے، تو وہ ان مصیبتوں کی وجہ سے جو انہیں اللہ کی راہ میں پہنچیں نہ پست ہمت ہوئے، نہ انہوں نے کمزوری دکھائی اور نہ انہوں نے دشمنوں کے آگے گھٹنے ٹیکے‘‘.
اس آیت میں جو لفظ ’’وھن‘‘ آیا ہے وہ قابل توجہ ہے. اس کے معنی ضعف کے ہیں. اب یہی لفظ ضعف بھی اس آیت میں آ گیا ہے، ساتھ ہی ’’استکانۃ‘‘ کا لفظ آیا ہے جس کے معنی بھی کمزوری کے ہیں. اگرچہ ان تینوں الفاظ میں کمزوری کا مفہوم مشترک ہے، لیکن ان تینوں میں ایک باریک اور نازک سا فرق بھی ہے. موت سے خوف اور زندگی سے محبت دل میں جو کمزوری پیدا کرتی ہے وہ’’وَھن‘‘ ہے. اسی مفہوم میں یہ لفظ ایک حدیث میں بھی آیا ہے. (۱) جسمانی کمزوری اور قوتِ ارادی کی کمزوری سے عمل میں جو تعطل پیدا ہوتا (۱) (مشکوٰۃ، باب تغیر الناس، ص۴۵۹) ہے وہ ’’ضعف‘‘ہے.
جبکہ حریف کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کی کمزوری اور بزدلی ’’اِستکانَۃ‘‘ ہے. چنانچہ اس آیت سے یہ بات واضح ہوئی کہ انبیاء علیہم السلام کے حوارِیّین جہاں شجاع، بہادر اور جنگجو تھے اور کسی قسم کی کمزوری اور بزدلی ان کے پاس پھٹکی بھی نہیں تھی، وہاں وہ ’’ رِ بِّیُّوۡنَ ‘‘ یعنی اللہ والے بھی تھے. بلکہ اگر آیت کے اسلوب کے پیش نظر یہ مفہوم لیا جائے کہ ان میں شجاعت پامردی، جان نثاری کے اوصاف پیدا ہی اس باعث ہوئے تھے کہ وہ ’’ربیون‘‘ تھے، اللہ والے بن چکے تھے، اللہ کی راہ میں جان دینا ان کو زندگی سے عزیز تر ہو گیا تھا، تو یہ بھی صحیح ہو گا. پس معلوم ہوا کہ اسلامی انقلابی جماعت کے کارکنوں کا اولاً اللہ والا ہونا لازمی ہو گا اور یہی للہیت ان میں وہ بہادری، دلیری اور حوصلہ مندی پیدا کرے گی کہ وہ اپنے سے دوگنا نہیں، دس گنا بلکہ اس سے بھی زیادہ تعداد کی کفار کی فوج سے بھی پروانہ وار ٹکرائیں گے. ان کو اللہ کی راہ میں گردن کٹانے کی آرزو اور تمنا سے عزیز تر کوئی چیز نہیں ہوگی. اگر صرف عسکری قوت ہی ہے، صرف مادی تربیت ہی ہے اور صرف تنظیم ہے، لیکن اللہ سے تعلق کمزور ہے تو وہ کام نہیں ہو گا جسے اسلامی انقلاب، اعلائے کلمۃ اللہ، اقامت دین ا ور اظہار دین الحق علی الدین کُلّہٖ سے تعبیر کیا جاتا ہے.
حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانے میں جب انقلابِ اسلامی کے بین الاقوامی مرحلہ کی تکمیل کے لئے جنگیں ہو رہی تھیں تو دو بڑے بڑے محاذ کھل گئے تھے. ایک شام کا محاذ اور دوسرا ایران کا محاذ… ایران کی افواج کے سپہ سالار رُستم نے چند ایرانی جاسوس بھیجے کہ مسلمانوں کی فوجوں کے حالات معلوم کریں اور رپورٹ دیں تاکہ اندازہ ہو کہ ان کے عزم و ہمت اور حوصلہ و ولولہ (Morale) کا عَالَم کیا ہے؟ ان کا رنگ ڈھنگ کیا ہے؟ ان کے شب و روز کیسے ہیں؟ بے سروسامان اور لوٹ مار کی خوگر اس عرب قوم کی کایا پلٹ اور قلب ماہیت (۱) کے اسباب کیا ہیں؟ سامانِ جنگ ان کے پاس کس درجہ کا ہے؟ رسد رسانی کے انتظامات کیا ہیں؟ فوجوں کی اصل تعداد کیا ہے؟ وغیرہ. تاکہ وہ اس تحقیق کی روشنی میں اپنے لئے جنگ کی حکمت عملی مرتب کر سکے. ان تحقیقات سے یقینا مدد ملتی ہے اور اگر کسی سمت میں کمزوری یا ضعف نظر آ جائے تو اس سے حریف بھرپور فائدہ اٹھانے کی تدابیر اختیار کرتا ہے. ان جاسوسوں نے بھیس بدل کر مسلمانوں کے لشکر میں گھوم پھر کر حالات معلوم کئے اور واپس جا کر رُستم کو جامع ترین الفاظ میں جو رپورٹ دی وہ یہ تھی کہ یہ عجیب لوگ ہیں: ھُمْ رُہْبَانٌ بِاللَّیْلِ وَفُرْسَانٌ بِالنَّھَارِ. ’’یہ رات کے راہب اور دن کے شہسوار نظر آتے ہیں‘‘.ان کی راتیں اپنے اللہ کے حضور میں قیام وسجود، الحاح (۲) و گریہ (۳) اور دعا و مناجات میں بسر ہوتی ہیں، ان کی ڈاڑھیاں اور ان کی سجدہ گاہیں خشیت ِ الٰہی کے آنسوؤ ں سے تر ہو جاتی ہیں… اور یہی لوگ دن کو شہسوار اور جنگجو نظر آتے ہیں اور میدان جنگ میں برق کی مانند کوندتے، لپکتے، جھپٹتے ہیں اور اس راہ میں گردن کٹا دینے کو اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے ہیں… جبکہ دنیا آج تک فوجیوں کے جن طور طریقوں سے واقف چلی آ رہی ہے وہ تو یہ ہیں کہ ان کی راتیں شراب و کباب اور شباب سے کھیلنے میں بسر ہوتی ہیں. جس بستی یا اس کے گردونواح میں کسی فوج کا پڑاؤ ہو جائے تو کیا وہاں کسی جوان خاتون کی عِصْمت محفوظ رہ سکتی ہے؟ لیکن وہ ایسے انوکھے، نرالے اور عجوبۂ روز گار سپاہی تھے کہ ان کی شخصیت کے یہ دو رُخ ’’ ھُمْ رُہْبَانٌ بِاللَّیْلِ وَفُرْسَانٌ بِالنَّھَارِ‘‘ اتنے ظاہر نمایاں تھے کہ غیر مسلم ایرانی جاسوسوں کو بھی نظر آ گئے.
تو یہ جو دو متضاد کیفیات کو جمع کردیا گیا ہے یہ درحقیقت تربیت ِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کا کمال ہے. اُس زمانے میں ان دونوں اقسام کے لوگ موجود تھے. شام و فلسطین کے علاقوں میں راہب اور راہب خانے بڑی کثرت سے موجود تھے. ایران اور روما اُس وقت کی دو عظیم ترین سلطنتیں تھیں اور ان کے درمیان وقفے وقفے سے سالہا سال تک جنگوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا. چنانچہ ایرانی، راہبوں اور ان کے روز و شب کے معمولات سے خوب واقف تھے. بحیرہ راہب کا نام سب نے سن رکھا ہے جس نے حضور ﷺ کو بچپن میں پہچانا تھا… جب آپ ﷺ ابوطالب کے ساتھ ایک تجارتی قافلہ میں شامل ہو کر شام تشریف لے گئے تھے… کہ آپ ﷺ نبی آخرالزماں ہیں. اندازہ کیجئے کہ اس راہب کا کتنا علم او رکتنا فہم ہو گا! اسی طرح حضرت سلمان فارسی ؓ کی داستان میں کئی راہبوں کا ذکر (۱) اصلیت بدل جانا (۲)گڑگڑانا (۳)رونا آتا ہے. اور ایک راہب ہی نے، جبکہ وہ بستر مرگ پر تھا، حضرت سلمان ؓ کے یہ پوچھنے پر کہ آپ کے بعد میں کس کے پاس جاؤ ں؟ کیونکہ تلاش حقیقت کی میری پیاس ابھی تک بجھی نہیں ہے اور آپ کے انتقال کا وقت آ گیا ہے، بتایا تھا کہ کھجوروں کی سرزمین میں آخری نبی ﷺ کا ظہور ہونے والا ہے. اس طرح ایرانی، راہبوں سے خوب واقف تھے اور یقینا ان میں چند بڑے خدا رسیدہ راہب تھے. لیکن وہ راہب، دن کے بھی راہب تھے اور رات کے بھی راہب. ان کے ہاتھ میں تلوار کبھی نظر نہیں آئی تھی اور نہ وہ کسی میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے نظر آئے تھے. اسی طرح ایرانی جنگی سپاہیوں سے بھی واقف تھے. اس دور میں سلطنت روما اور سلطنت کسریٰ کی لاکھوں کی تعداد میں وقت کے اعلیٰ ترین اسلحہ سے لیس اور بہترین تربیت یافتہ عسکری قوت موجود تھی، اگرچہ عرب اس وقت ان دونوں چیزوں سے نابلد تھے… پھر تعداد کے تناسب کا یہ عالم تھا کہ دورِ نبوت میں جنگ موتہ کے موقع پر مسلمانوں کے تین ہزار کے لشکر کے مقابلہ میں رومیوں کی ایک لاکھ فوج آ گئی تھی. تو ان دونوں مملکتوں کے پاس لاکھوں کی تعداد میں فوجیں ہر وقت موجود رہتی تھیں. لیکن مسلمان مجاہدین کا عالم یہ تھاکہ ؏ ’’تھمتانہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا‘‘.
جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی تربیت کا یہ کمال ہے کہ ان دو متضاد چیزوں کو ایسے جمع کیا کہ آپ ﷺ کے ساتھی رات کے راہب ہونے کے ساتھ ساتھ دن کے مجاہد اور مردِ میدان بن گئے اور جب تک یہ دونوں اوصاف جمع نہیں ہوں گے وہ اسلامی انقلاب کبھی نہیں آئے گا جو اصل مقصود ہے، اور جو برپا فرمایا تھا نبی اکرم ﷺ نے.