مدینہ میں حضورﷺ کے اقدامات بغرضِ استحکام

۱) مسجد نبوی کی تعمیر:

پہلافوری اِقدام اقامت صلوٰۃ سے متعلق تھا. اس لیے کہ منشورِ الٰہی کی پہلی شق یہی ہے. چنانچہ حضور  نے پہلا کام جو کیا وہ مسجد نبوی کی تعمیر تھا. اس کے لیے جگہ کا انتخاب کیا گیا، پھر اس کے حصول کے بعد تعمیر کا آغاز کر دیا گیا. اس تعمیر کا یہ پہلو قابل غور ہے کہ حضور  اس میں بنفسِ نفیس شریک رہے ہیں. آپ  نے ایک مزدور اور کارکن کی حیثیت سے مسجد نبوی  کی تعمیر میں حصہ لے کر اپنے آباء و اجداد کی سنت کی تجدید فرمائی. سورۃ البقرۃ میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے بیت اللہ کی بنیادیں اُٹھانے کا ذکر بایں الفاظ کیا گیا ہے وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ بیت اللہ کی دیواریں حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیہماالسلام نے اُٹھائی تھیں تو مسجد نبوی  کی تعمیر میں محمد رسول اللہ  کی توانائیاں اور آپ کی محنت کا پسینہ شامل تھا.

۲) مواخات:

دوسرااِ قدام جو آپ  نے فرمایا اس کا عنوان مواخات ہے. یہ بہت بڑا کام تھا. مہاجرین کو مدینہ کی آبادی میں مدغم اور ضم (Integrate) کرنا، تاکہ وہ اس معاشرہ میں علیحدہ طبقہ کی حیثیت سے نہ رہ جائیں بلکہ اس کا ایک جزوِ لاینفک بن جائیں. چنانچہ مہاجرین میں جو اہم لوگ تھے ان کے بالکل سگے بھائیوں کی طرح انصار کے ساتھ رشتے کرا دیئے گئے. مواخات کا یہ اقدام داخلی استحکام کے لیے بڑی اہمیت کا حامل تھا. مواخات کا یہ معاملہ سیرت مطہرہ کے ابواب میں ایک نہایت اہم باب ہے اور معلوم تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی. اس کے نتیجے میں انصار نے مہاجرین کے لیے اپنے گھر اور دوکانیں تقسیم کر دیں. ایک انصاری صحابیؓ کے بارے میں یہاں تک آتا ہے کہ ان کی دو بیویاں تھیں. وہ اپنے مہاجر بھائی کو گھر میں لے گئے. چونکہ اُس وقت تک حجاب کا حکم نہیں آیا تھا لہذا انہوں نے پیشکش کی کہ ان دونوں میں سے جو آپ کو پسند ہو میں اسے طلاق دیتا ہوں، آپ اس سے نکاح کر لیں. اس لیے کہ میں یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ میرے گھر میں دو بیویاں ہوں اور میرے بھائی کا گھر آباد نہ ہو.

یہ مؤاخات بھی نہایت انقلابی اہمیت کا حامل اِقدام ہے. اس لیے کہ انسان کی سرشت کے اندر جو کمزوریاں ہیں اس میں طبقاتی تفاوت و امتیاز اور کشمکش بہت خوفناک ہوتی ہے. اوس و خزرج میں قبائلی و طبقاتی کشمکش اور عصبیت پہلے سے موجود تھی. لیکن اسلام اور پھر رسول اللہ  کے بنفسِ نفیس ورودِ سعید 
(۱نے اس کو ختم کیا. لیکن اس کے باوجود کچھ عرصہ بعد ہی منافقین اور یہود کسی نہ کسی بہانہ سے اس چنگاری کو بھڑکانے کی کوشش کرتے تھے . چنانچہ اگر مہاجرین اور انصار کا اس طرح اِدغام و اِنضمام نہ کر دیا گیا ہوتا او ران کے مابین مواخات قائم نہ کر دی گئی ہوتی تو ہو سکتا تھا کہ بہت سی داخلی مشکلات پیدا ہو جاتیں. منافقین اور یہود نے اس کی موقع بموقع کوششیں کیں، لیکن نبی اکرم  کی فراست، تدبر، معاملہ فہمی اور حکمت نے ایسی تمام کوششوں کو ناکام بنا دیا. 

۳) یہودی قبائل سے معاہدے:

تیسرا اِقدام جو رسول اللہ  نے مدینہ میں استحکام کے لیے فرمایا وہ یہودیوں کے ساتھ معاہدوں سے متعلق تھا، جن کے تین قبیلے مدینہ میں آباد تھے اور وہ بہت اہم، بااثر اور طاقتور تھے. مدینہ کے اقتصادی شعبہ پر ان کا مضبوط تسلط تھا. ان کی قلعہ نما گڑھیاں تھیں، جن میں کافی اسلحہ اور سازوسامان تھا. اگرچہ یہود اصل مالکان دِہ کی حیثیت نہیں رکھتے تھے، مالکانِ دِہ تو اوس و خزرج تھے، لیکن سرمایہ، تنظیم اور تعلیم، یہ چیزیں یہود میں بہت زیادہ تھیں اور وہ بہت مؤثر عامل کی حیثیت سے وہاں موجود تھے. حضور  کی دُور اندیشی کا یہ شاہکار ہے کہ آپ  نے مدینہ تشریف لے جاتے ہی فوراً یہود کے تینوں قبیلوں کو معاہدوں میں جکڑ لیا. ان سے معاہدہ طے پا گیا کہ وہ اپنے مذہب پر قائم رہیں گے، ان کے تمام شہری حقوق محفوظ رہیں گے، اور اگر کبھی مدینے پر کسی طرف سے حملہ ہوا تو وہ مسلمانوں کے حلیف کی حیثیت سے ان کا ساتھ دیں گے یا بالکل غیر جانب دار رہیں گے. وہ اس معاہدے میں ایسے بند ھ گئے کہ وہ کھلم کھلا مسلمانوں کے مقابلہ میں نہیں آ سکے. اگرچہ بعد میں اسلام کی اشاعت اور استحکام کو دیکھ کر وہ انگاروں پر لوٹتے رہے اور (۱) مبارک آم مشرکینِ قریش سے ساز باز کر کے پس پردہ ریشہ دوانیاں کرتے رہے لیکن یہ سب کچھ چوری چوری ہو رہا تھا، وہ علی الاعلان مقابلہ میں نہیں آ سکتے تھے. مختصراً یہ کہ نبی اکرم  نے یہودیوں کے تینوں قبیلوں کو معاہدوں کا پابند بنانے کے لیے جو اِقدام فرمایا وہ ہر لحاظ سے دُور اندیشی اور فراست و ذہانت کا ایک شاہکار تھا. اس اِقدام نے اسلامی تاریخ میں نہایت اہم اور مثبت کردار ادا کیا ہے.