غزوۂ بدر میں مٹھی بھر مسلمانوں کے ہاتھوں قریش کی شرمناک ہزیمت اور ان کے ستر سربرآوردہ لوگوں کا کھیت رہنا اصل میں یہ عذاب الٰہی تھا. اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ جب وہ کسی قوم یا ملک کی طرف کسی رسول کو بھیجتا اور وہ قوم انکار پر اس درجہ اَڑ جاتی تھی کہ رسول کی جان لینے کے درپے ہوجائے، یہاں تک کہ رسول کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑے، تو رسول اور ان کے ساتھیوں کی ہجرت کے بعد اس قوم پر عذاب کا آنا لازم ہوتا تھا. رسول اور ان کے اصحاب کو بچا لیا جاتا تھا او رپوری قوم ہلاک کر دی جاتی تھی.

البتہ عذابِ الٰہی کی صورتیں اور نوعیتیں مختلف رہی ہیں. ایسا بھی ہوا کہ پوری قوم کو ایک عظیم طوفان باد و باراں کے ذریعہ غرق کر دیا گیا. جیسے حضرت نوح ؑ کی قوم کے ساتھ معاملہ ہوا اور کہیں ایسا ہوا کہ پوری کی پوری قوم کو ان کی بستیوں کے اندر ہی ختم کر دیا گیا جیسے قومِ لوط، قومِ عاد اور قومِ ثمود کی بستیاں 
تُدَمِّرُ کُلَّ شَیۡءٍۭ بِاَمۡرِ رَبِّہَا فَاَصۡبَحُوۡا لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ؕ (الاحقاف:۲۵’’اکھاڑ پھینکے ہر چیز کو اپنے رب کے حکم سے پھر کل کو رہ گئے کہ کوئی نظر نہیں آتا تھا سوائے ان کے گھروں کے‘‘. کہیں ایسا ہوا کہ اہل تمرد کو زمین میں دھنسا دیا گیا جیسے قارون کے ساتھ معاملہ ہوا، اور کہیں ایسا بھی ہوا کہ کفار و مکذبین کے سربرآوردہ اور چیدہ چیدہ لوگوں کو ان کی بستیوں سے باہر نکالا گیا اور ان کو عذابِ الٰہی نے ملیامیٹ کر دیا، جیسے آلِ فرعون کو حضرت موسیٰ ؑ کے تعاقب میں نکالا گیا اور ان کو سمندر میں غرق کر دیا گیا. سورۃ العنکبوت میں ان چاروں انواع کے عذاب کا ذکر بایں الفاظ فرمایا گیا ہے: 

فَکُلًّا اَخَذۡنَا بِذَنۡۢبِہٖ ۚ فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ اَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِ حَاصِبًا ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَخَذَتۡہُ الصَّیۡحَۃُ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ خَسَفۡنَا بِہِ الۡاَرۡضَ ۚ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ اَغۡرَقۡنَا ۚ
’’ آخرکار ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ میں پکڑا. پھر ان میں سے کسی پر ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا بھیجی، اور کسی کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا، اور کسی کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا، اور کسی کو غرق کر دیا…‘‘

آلِ فرعون کے ساتھ جو معاملہ ہوا اس سے ملتاجلتامعاملہ قریش مکہ کے ساتھ کیا گیا. یہاں اسی سنت اللہ کا ظہور ہمیں صرف اس فرق کے ساتھ ملتاہے کہ آلِ فرعون کو تو سمندر میں غرق کر دیا گیا لیکن قریش کے جو نامی گرامی سردار نبی اکرم کو ایذا پہنچاتے رہے تھے، جو حضور کے خون کے پیاسے تھے، جو توحید کی انقلابی دعوت کے شدید مخالف تھے، ان 
سب کو میدانِ بدر میں کھینچ لایا گیا اور انہیں اہل ایمان کے ہاتھوں قتل کرا دیا گیا. اسی سنت اللہ کی جانب اشارہ سورۃ الانفال کی آیت ۱۷کے آغاز میں ہے کہ فَلَمۡ تَقۡتُلُوۡہُمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمۡ ’’(اے مسلمانو!) تم نے ان (مشرکین مکہ) کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا ہے‘‘.

ابو لہب میدان میں نہیں آیا تھا، لیکن عذابِ الٰہی سے وہ بھی نہ بچ سکا. چنانچہ غزوۂ بدر کے کچھ ہی دنوں بعد وہ مکہ کے اندر ہی پلیگ جیسی کسی بیماری میں مبتلا ہو کر نہایت عبرت ناک موت سے دوچار ہوا. اس کا تمام جسم سڑ گیا تھا اور اس میں شدید تعفن پیدا ہو گیا تھا. چنانچہ اس کے اپنے قریبی رشتہ داروں نے بھی اس کو ہاتھ نہیں لگایا بلکہ اسکی لعش کو لکڑیوں سے دھکیل دھکیل کر ایک گڑھے میں دفن کر دیا گیا.

پس دراصل غزوۂ بدر میں صنادید 
(۱مشرکین کی ہلاکت اس سُنّت اللہ کے مطابق دُنیوی عذابِ الٰہی تھا جو اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی تکذیب اور ان کو دیس سے نکلنے پر مجبور کرنے والے کفار و مکذبین کے لیے طے کر رکھا ہے.

صحابہ کرامؓ میں سے تیرہ حضرات نے میدانِ بدر میں جامِ شہادت نوش فرمایا، اور حضرت عبیدہؓ جو زخمی تھے، واپسی کے سفر میں اثنائے راہ ان کا انتقال ہو گیا. اس طرح گویا صحابہ کرامؓ کی طرف سے چودہ افراد نے اپنے رب کے حضور جان کا نذرانہ پیش کر دیا، جبکہ کفار و مشرکین کے ستر صنادید خاک و خون میں مبتلا ہو کر واصلِ جہنم ہوئے. مزید یہ کہ ستر مشرکین کو اہلِ ایمان نے قید کر لیا.