نبی اکرم ﷺ نے ایک ہزار کی نفری لے کر مدینہ سے جبل اُحد کی جانب کوچ فرمایا، لیکن راستے ہی میں عبداللہ بن اُبی تین سو افراد کو یہ کہہ کر اپنے ساتھ واپس لے کر چلا گیا کہ جب ہمارے مشورے پر عمل نہیں ہوتا اور ہماری بات نہیں مانی جاتی تو ہم ساتھ کیوں دیں اور اپنی جان جوکھوں میں کیوں ڈالیں؟ اب آپ اندازہ کیجئے کہ مدنی دَور کے قریباً اڑھائی سال کے اندر اندر جنگ کے قابل مسلمانوں کی کل نفری کا لگ بھگ ایک تہائی حصہ منافقین پر مشتمل ہو چکا تھا. معاملہ کی نزاکت کا اندازہ کیجئے کہ جو تین سو واپس چلے گئے ان کے منافق ہونے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہو سکتا. یہ جو سات سو افرادباقی رہ گئے تھے، ان میں کمزور اور ضعیف ایمان والے بھی تھے. چنانچہ یہ حقیقت کہ دامن اُحد میں پہنچ کر مدینہ کے دو خاندانوں کے افراد نے کم ہمتی کے باعث واپس لوٹنا چاہا ___ سورۂ آل عمران میں اس کا ذکر بھی موجود ہے اِذۡ ہَمَّتۡ طَّآئِفَتٰنِ مِنۡکُمۡ اَنۡ تَفۡشَلَا ۙ وَ اللّٰہُ وَلِیُّہُمَا ؕ ’’یاد کروجب تم میں سے دو گروہ ڈھیلے پڑ گئے تھے (کمزوری دکھانے والے تھے) حالانکہ اللہ ان کا مددگار تھا‘‘. وہ ان کا پشت پناہ تھا، اس نے ان کو سنبھال لیا اور وہ میدان میں ڈٹے رہے ___ چنانچہ یہ دونوں گروہ بعد میں کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو ’’مِنۡکُمۡ‘‘ قرار دیا ہے. یعنی امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام ہی میں شامل قرار دیا ہے اور اپنی ذات سبحانہ کو ہمارا ولی، دوست اور پشت پناہ فرمایا ہے ___ البتہ اس سے یہ تو معلوم ہوا کہ ان دو گروہوں میں کمزوری پیدا ہوئی تھی اور ان کی ہمت جواب دینے لگی تھی. لیکن وہ تھے بہرحال اصحابِ ایمان! جب ہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو سنبھال لیا. لیکن جو محمد رسول اللہ ﷺ کا ساتھ چھوڑ کر راستہ ہی سے عبداللہ بن اُبی کے ساتھ واپس مدینہ چلے گئے، ظاہر ہے ان کے نفاق میں کوئی شک نہیں ہو سکتا. گویا ایک ہزار میں سے تین سو کی نفری منافقین پر مشتمل تھی.