غزوۂ اُحد کے بعد کے دو سال کے عرصہ میں تشویش اور خوف کی حالت رہی، جو غزوۂ خندق کے موقعہ پر اپنے نقطۂ عروج (Climax) کو پہنچی.

رمضان المبارک ۲ھ میں غزوۂ بدر ہوا. پھر شوال ۳ھ میں معرکۂ اُحد پیش آیا. ذیقعدہ ۵ھ میں یعنی دو سال اور ایک ماہ بعد اب قریش اور دیگر قبائل جن میں یہود بھی شامل تھے متحد ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے. عرب میں اس سے پہلے کبھی اتنا بڑا لشکر جمع نہیں ہوا 
تھا. بارہ ہزار کا لشکر مدینہ پر چڑھائی کے لیے جمع ہو گیا. جنوب سے قریش آ گئے. مشرقی جانب سے کئی قبائل آ گئے جن میں بنو فرازہ اور بنو غطفان بھی تھے جو نجد کے علاقے کے بڑے جنگ جُو اور خونخوار قبیلے تھے. شمال سے وہ یہودی قبائل حملہ آور ہو گئے جو خیبر میں آباد تھے. اس طرح ان قبائل نے مدینہ کو گھیرے میں لے لیا. اس کا نقشہ سورۃالاحزاب میں کھینچا گیا ہے. اس سورۂ مبارکہ میں غزوۂ احزاب کا ذکر پورے دو رکوعوں پر پھیلا ہوا ہے.