آپ یہاں لکھنا شروع کر سکتے ہیں.

غزوۂ بدر کے متصلاً بعد شوال ۲ھ میں بنو قینقاع کا مسئلہ کھڑا ہو گیا. یہ پیشے کے اعتبار سے زرگر تھے اور ان کے پاس جنگی اسلحہ بہت تھا. دوسرے یہودی قبیلوں کے مقابلہ میں یہ 
(۱)’’ابن ہشام‘‘ نے یہ پورا معاہدہ نقل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:

(i) خون بہا اور فدیہ کا جو طریقہ پہلے سے چلا آتا تھا، اب بھی قائم رہے گا.
(ii) یہود کو مذہبی آ زادی حاصل ہو گی اور ان کے مذہبی معاملات سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا. 
(iii) یہود اور مسلمان دوستانہ برتاؤ رکھیں گے. 
(iv) یہود یا مسلمانوں کو کسی بیرونی فریق سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مدد کرے گا. 
(v) کوئی فریق قریش کو امان نہیں دے گا.
(vi) مدینہ پر کوئی حملہ ہو گا تو دونوں فریق ایک دوسرے کے شریک ہوکر جنگ کریں گے. 
(vii) کسی دشمن سے اگر ایک فریق صلح کر لے گا تو دوسرا بھی اس صلح میں شریک ہو گا لیکن مذہبی لڑائی اس سے مستثنیٰ ہو گی. (مرتب) 
جری، بہادر اور شجاع بھی تھے. اسلام کی ترقی کو دیکھ کر وہ زیادہ دیر تک ضبط نہیں کر سکے. غزوۂ بدر کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اقدام کیا اور اعلانِ جنگ کی جرأت کی. ہوا یہ کہ ایک انصاری کی نقاب پوش بیوی بنو قینقاع کے ایک یہودی کی دکان پر آئیں تو یہودیوں نے ان کی بے حرمتی کی. ایک مسلمان یہ دیکھ کر غیرت سے بے تاب ہو گیا اور اس نے یہودی کو مار ڈالا. یہودیوں نے اس مسلمان کو قتل کر دیا.

نبی اکرم کو جب یہ حالات معلوم ہوئے تو آپ بنفس نفیس ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ’’اللہ سے ڈرو‘ ایسا نہ ہو کہ بدر والوں کی طرح تم بھی عذاب میں مبتلا کر دیئے جاؤ‘‘. جواب میں یہودیوں نے کہا کہ ’’ہم قریش نہیں ہیں، ہم سے معاملہ پڑے گا تو ہم دکھا دیں گے کہ لڑائی کس شے کا نام ہے. اور ایسا ہی ہے تو ہم اعلانِ جنگ کرتے ہیں، دنیا دیکھ لے گی کہ بہادر کون ہے!‘‘. اس طرح ان کی طرف سے نقض عہد (۱اور اعلانِ جنگ ہو گیا. مجبور ہو کر نبی اکرم نے ان پر چڑھائی کی. وہ قلعہ بند ہو گئے. پندرہ دن تک محاصرہ رہا. بالآخر وہ اس پر راضی ہوئے کہ رسول اللہ  جو فیصلہ بھی کریں گے انہیں قبول ہوگا. حضور نے نرمی اور رأفت (۲سے کام لیا اور فیصلہ فرما دیا کہ وہ اونٹوں پر جتنا سامان لے جا سکتے ہیں لے کر جہاں چاہیں چلے جائیں، وہ اب مدینہ میں نہیں رہ سکتے. چنانچہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ مال و اسباب لے کر جلاوطن ہو گئے. ایک روایت کے مطابق ان میں سے کچھ لوگ خیبر میں جا کر آباد ہو گئے جو مدینہ سے دو سو میل شمال کی طرف یہودیوں کا ایک بہت مضبوط گڑھ تھا. یہ بڑا سر سبز اور زرخیز علاقہ تھا.