خیبر پہلے سے ہی عرب میں یہود کا مضبوط ترین گڑھ تھا. بنو قینقاع اور بنو نضیر کے بہت سے لوگ بھی وہیں جا مقیم ہوئے. اس طرح یہود کی قوت میں بہت اضافہ ہو گیا. غزوۂ احزاب کے موقع پر قریش اور دوسرے عرب قبائل کا مدینہ پر اتنی بڑی تعداد میں لشکر کشی کرنے میں خیبر کے یہودی سرداروں کا سب سے زیادہ عمل دخل تھا. بارہ ہزار کے لشکر میں کم و بیش دو ہزار یہودی بھی شامل تھے. پھر بنوقریظہ کو نقضِ عہد اور پشت سے مسلمانوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے لئے آمادہ کرنے میں بھی انہی یہودی سرداروں کی کوششوں کا فیصلہ کن دخل تھا. الغرض عرب کے قبائل خصوصًا قریش کو مسلمانوں کے خلاف برانگیختہ (۱) کرنے میں خیبر کے سردارانِ یہود ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.
ذوالقعدہ ۶ھ میں جب قریش سے حدیبیہ کے مقام پر دس سال کے لئے صلح ہو گئی اور رسول اللہ ﷺ کو اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو ۶ھ کے اواخر میں آپﷺ نے جزیرہ نمائے عرب میں یہود کی اس طاقت کے خلاف اقدام کرنے کا فیصلہ فرمایا جو خبیر کے مقام پر مجتمع ہو گئی تھی. قبیلہ غطفان جس کا شمار بھی عرب کے مضبوط قبائل میں ہوتا تھا، کی آبادی خیبر سے متصل واقع تھی اور یہ کافی عرصہ سے خیبر کے یہود کے حلیف تھے. خیبر کے رئیس ابو رافع سلام نے جو بنو نضیر سے تعلق رکھتا تھا، لیکن بہت بڑا تاجر اور صاحب ثروت ہونے کے باعث خیبر کی سرداری پر فائز تھا، ۶ھ میں خود جا جا کر قبیلہ غطفان اور آس پاس کے قبائل کو متحد ہو کر اسلام کے خلاف اقدام کے لئے تیار کر لیا تھا اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر لی تھیں. نبی اکرمﷺ کو یہ تمام خبریں مل رہی تھیں. رمضان ۶ھ میں ابو (۱) مشتعل رافع سلام ایک خزرجی انصاری کے ہاتھوں قتل ہوا. اس کے بعد خیبر کا اُسیر نامی ایک یہودی مسند سرداری پر فائز ہوا. اس نے بھی ابو رافع سلام کے مشن کو کامیاب بنانے کے لئے پوری تیاری کر لی. پھر مدینہ کے منافقین بھی یہودِ خیبر کو مسلمانوں کی خبریں پہنچاتے تھے اور ان کی ہمت افزائی کرتے تھے کہ مسلمان تمہاری فوجوں کے آگے نہیں ٹھہر سکیں گے.
رسول اللہ ﷺ نے کوشش فرمائی کہ یہود خیبر سے کوئی معاہدہ ہو جائے. چنانچہ آپﷺ نے صلح حدیبیہ سے پہلے اور بعد میں کئی سفارتی وفود خیبر کے یہود کے پاس بھیجے لیکن وہ اپنے ارادوں سے باز نہیں آئے. ان کے چھوٹے چھوٹے چھاپہ مار دستے مدینہ کے باہر متفرق چھوٹی چھوٹی آبادیوں پر تاخت کرتے اور غارت گری کے بعد بھاگ جاتے. بالآخر نبی اکرمﷺ نے ان کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کے مقصد کے پیش نظر ذوالحجہ ۶ھ میں مسلمانوں کے ایک لشکر کے ساتھ خیبر کی طرف کوچ فرمایا. لیکن خیبر کا معرکہ ۷ھ کے اوائل میں پیش آیا، کیونکہ اس غزوہ نے کافی طول کھینچا. خیبر میں یہود کی بڑی قوت مجتمع تھی، جہاں یکے بعد دیگرے ان کے بڑے مضبوط قلعے تھے. چنانچہ ہر قلعہ پر زبردست جنگ ہوئی. آخری مضبوط ترین قلعہ (قموص) حضرت علیؓ کے ہاتھوں فتح ہوا. یہود کے بڑے بڑے سردار اِن معرکوں میں مارے جا چکے تھے. چنانچہ انہوں نے کامل شکست تسلیم کر لی. اس طرح جزیرہ نمائے عرب سے یہود کی عسکری قوت کا بالکل خاتمہ ہو گیا.
فتح کے بعد مفتوحہ علاقہ پر قبضہ کر لیا گیا، لیکن یہود کی درخواست پر زمین ان کے قبضہ میں اس شرط کے ساتھ رہنے دی گئی کہ وہ پیداوار کا نصف حصہ مسلمانوں کو ادا کیا کریں گے. جب بٹائی کا وقت آتا نبی اکرمﷺ اپنے کسی صحابیؓ کو بھیجتے، جو آ کر غلہ کو دو برابر حصوں میں تقسیم کر کے یہود سے کہا کرتے تھے کہ انتخاب کا حق تمہیں حاصل ہے، جو حصہ چاہو تم لے لو. یہود اس عدل پر متحیر ہو کر کہتے تھے کہ ’’زمین و آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں‘‘.
غزوۂ خیبر پہلا غزوہ ہے جس میں غیر مسلموں کو رعایا بنایا گیا. گویا صلح حدیبیہ اور یہود کا رعیت کی حیثیت قبول کرنا اس بات کی علامات میں شامل ہیں کہ اسلامی طرزِ حکومت کی بنیاد بھی قائم ہو گئی اور اس کا عملی ظہور بھی شروع ہو گیا. حضرت عمرؓ کے دَورِ خلافت کے آغاز تک یہ سلسلہ چلتا رہا. نبی اکرمﷺ مرض وفات میں وصیت فرما گئے تھے کہ یہود جزیرہ نمائے عرب میں رہنے نہ پائیں. حضرت ابوبکرؓ کو مدعیانِ نبوت، مانعین زکوٰۃ اور فتنۂ ارتداد سے کامل طور پر نمٹنے میں مصروف ہو جانے کی وجہ سے اس معاملہ کی طرف توجہ دینے کا موقع نہیں ملا. اگرچہ خلافت صدیقی کے دَور ہی میں یہ تمام فتنے ختم ہو چکے تھے، لیکن ساتھ ہی توحید کی اس انقلابی دعوت کی توسیع کے عمل کا بیرون ملک عرب آغاز ہو چکا تھا اور قیصر و کسریٰ سے باقاعدہ لڑائیاں شروع ہو چکی تھیں. چنانچہ جزیرہ نمائے عرب سے یہود کے مکمل اخراج کا معاملہ دَورِ خلافت صدیقی ؓ کے بجائے دَورِ خلافت فاروقی ؓ کے آغاز میں شروع ہوا اور ایک قلیل عرصہ میں تمام یہود جزیرہ نمائے عرب سے جلاوطن کر دیئے گئے. ان کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں ہوئی اور ان کو کامل آزادی دی گئی کہ وہ اپنا جملہ منقولہ ساز و سامان ساتھ لے جا سکتے ہیں. اس طرح جزیرہ نمائے عرب یہود جیسی سازشی قوم کے وجود سے پاک ہو گیا.
صلح حدیبیہ کی بدولت قریباً دو سال تک قریش اور اہل ایمان کے مابین امن رہا. دونوں فریق ایک دوسرے کے شہروں میں آتے جاتے رہے اور ان کے مابین روابط قائم ہوئے. کفار و مشرکین اہل ایمان کی پاکیزہ سیرت و کردار سے متاثر ہوتے رہے. اس دوران اسلام کو نہایت فروغ حاصل ہوا. چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد ہی حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت عمرو بن العاصؓ جیسے مردانِ شجاعت حلقہ بگوش اسلام ہوئے.