اس معاملے میں ایک تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اخبارات میں ہمارے بعض مفتیانِ کرام کے بیانات آئے ہیں جن میں انہوں نے بلا قید اجازت دی ہے کہ خواتین دفتروں میں جائیں‘ وہاں وہ کام کر سکتی ہیں. یہاں تک کہا گیا ہے کہ خواتین اپنے حقوق کے لیے مظاہرے کر سکتی ہیں اور کہا گیا ہے کہ تحریک نظامِ مصطفی کے موقع پر بھی مسلمان خواتین نے جلوس نکالے اور مظاہرے کیے تھے. ان کرم فرما حضرات میں سے بعض نے مجھے انتہا پسند قرار دیا ہے. مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ’’جنگ‘‘ میں خواتین سے متعلق میرے جو خیالات شائع ہوئے ہیں ان پر اسی شہر لاہور کی بعض مساجد میں جمعہ کے اجتماعات کے موقع پر خطیب حضرات نے فرمایا ہے کہ ’’ڈاکٹر اسرار احمد عورتوں کو قید میں رکھنے کا قائل ہے‘ اسلام عورتوں کو پوری آزادی دیتا ہے اور اس نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں‘‘. یہ کتنی تکلیف دہ اور افسوس ناک بات ہے کہ سیاست اور فرقہ وارانہ تعصب اور گروہ بندی کی وجہ سے ہمارے دین اور قرآن کے ساتھ تلعُّب (کھیل تماشہ) کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے. (۱انہی مفتیانِ کرام سے اگر آپ فتویٰ (۱) الحمد ﷲثم الحمد للہ‘ ہمارے ملک میں ایسے علماء حق‘ سیاسی وسماجی زعماء‘ تعلیم یافتہ حضرات وخواتین اور مدیرانِ اخبارات ورسائل بڑی کثیر تعداد میں ہیں جن میں دین کے لیے پوری غیرت وحمیت موجود ہے. چنانچہ بعض نظری اختلافات کے با وصف ان سب نے تجدد پسند‘ مغرب زدہ اور مفاد پرست ایک قلیل لیکن اعلیٰ مناصب پر فائز ہونے کی وجہ سے مؤثر طبقے نے ڈاکٹر صاحب کے خالص اسلامی نقطۂ نظر پر جو شور شرابا اُٹھایا تھا‘ (باقی اگلے صفحہ پر) لیں کہ کیا عورت مسجد میں آ کر فرض نماز ادا کر سکتی ہے تو یقینا وہ اس کی اجازت نہیں دیں گے. حد یہ ہے کہ یہ حضرات عیدین میں بھی عورتوں کو لانے کی اجازت نہیں دیتے‘ حالانکہ احادیث ِصحیحہ میں عورتوں کو عیدین میں لانے کی صراحت کے ساتھ تاکید موجود ہے‘ لیکن وہ دفتروں میں مردوں کے دوش بدوش خواتین کے کام کرنے کے متعلق یہ فرما رہے ہیں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں. اس طرح ان کا تضادِ فکری بہت نمایاں ہو کر سامنے آ رہا ہے. ایسے ہی رجالِ دین کے لیے علامہ اقبال مرحوم نے کہا تھا ؎

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

وہ مسجدوں میں عورتوں کا آنا گوارا نہیں کرتے‘ لیکن دفتروں میں عورتوں کے جانے کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے. 

خواتین کے لیے نماز کی ادائیگی کی فضیلت کے جو مدارج آنحضور  نے متعین فرمائے ہیں‘ ان کو دو حدیثوں کے حوالے سے آپ کو بتا چکا ہوں. غور کیجیے یہ تاکید کس لیے ہے. اس لیے کہ عورت میں اللہ تعالیٰ نے جو نسوانی حسن‘ رعنائی‘ دل ربائی اور کشش وجاذبیت رکھی ہے اور رکوع وسجود کی حالت میں اس کے جسم کی جو صورت ہوتی ہے اُس کا تقاضا ہے کہ تنہائی میں جہاں کوئی آنکھ اسے ان حالات میں دیکھنے والی نہ ہو‘ نماز ادا کرنا عورت کے لیے زیادہ بہتر‘ افضل اور موجب ِاجر وثواب ہوگا. لیکن وائے افسوس کہ ہماری بہنیں جس طرح بناؤ سنگھار کے ساتھ سرکاری دفاتر اور دوسرے اداروں میں کام کرنے کے لیے جایا کرتی ہیں‘ جہاں اس کے خلاف عین غیرتِ دینی کے تحت شدید ردّ عمل کا اظہار کیا ہے. اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے. علامہ اقبال مرحوم نے کیا خوب کہا تھا ؎

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!

(مرتب) مردوں کے ساتھ ملنے جلنے اور ساتھ ساتھ کام کرنے کے مواقع ہوتے ہیں‘ اس کی اصلاح اور سد ِ باب کی کوشش کرنے اور ان خواتین کو اپنا اسلامی تشخص اور کردار برقرار رکھنے اور اپنی عاقبت سنوارنے کی تلقین ونصیحت کرنے کے بجائے اُلٹا یہ حضرات ان کو اس روش پر قائم رہنے کی شہ دے رہے ہیں. ؏ بہ بیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا!