اس آیۂ مبارکہ پر تدبّر کے ضمن میں جو پہلی بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ نیکی کی بحث میں سب سے پہلے ایمان کا ذکر کیوں ہو رہا ہے.بظاہر یہ بات ہمارے عام تصورات کے اعتبار سے کچھ اَنمل اور بے جوڑ سی معلوم ہوتی ہے.اس لیے کہ ہم تونیکی کا تعلق عمل سے سمجھتے چلے آرہے ہیں‘یہ ایمان کی بحث یہاں کیسے آگئی!پھر یہ کہ یہاں صرف ایمان باللہ ہی نہیں‘چند اور ایمانیات کا ذکر بھی شدّومدّکے ساتھ ہو رہا ہے.قابل غور بات یہ ہے کہ ان ایمانیات کا نیکی کی بحث کے ساتھ کیا معنوی تعلق ہے!
سب جانتے ہیں کہ فلسفۂ اخلاق عمرانیات کا ایک مستقل اور نہایت اہم شعبہ ہے.مزید برآں اس فلسفۂ اخلاق میں دو سوالات بنیادی ہیں.پہلا یہ کہ اخلاقی اقدار کیا ہیں؟اور آیا وہ مستقل اور دائم ہیں یا اُن میں حالات کے بدلنے اور زمانہ کے گزر جانے سے کوئی تغیروتبدّل ہوتا ہے ؟دوسرا بنیادی سوال اس سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ یہ کہ وہ قوتِ محرکہ کون سی ہے جو انسان کو نیکی پر کاربند رکھے‘خواہ اس میں فوری طور پر نقصان یا تکالیف کا سامنا ہو؟ہمارا مشاہدہ ہے کہ حسّاس اور طبّاع شاعر انسانی احساسات کو خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں.چنانچہ اس جذبۂ محرکہ کے ضمن میں مرزا غالبؔ نے بڑی پیاری بات کہی ہے کہ: ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی!
اور حالی ؔنے مجبوری اور لاچاری کی نیکی اور پارسائی پر نہایت خوبصورت پھبتی چست کی ہے کہ: ؎
رکا ہاتھ جب‘ پارسا ہو گئے ہم
نہیں پارسائی‘ یہ ہے نارسائی!
گویا سوال یہ ہے کہ شراورشرارت پر قادر ہونے کے باوجود‘جب کہ اس میں فوری لذت یا نفع بھی ہو‘انسان کی طبیعت کو خیر اور زہدکی طرف لانے والی شے کون سی ہے؟ایک شخص کو معلوم ہے کہ جھوٹ بولنا بُرا ہے ‘لیکن وہ دیکھ رہا ہے کہ جھوٹ بولنے پر مجھے کچھ نفع حاصل ہو سکتا ہے‘اب وہ کون سی چیز ہے جو اسے جھوٹ بولنے سے باز رکھے اور سچ بولنے پر آمادہ کرے‘خواہ سچ بولنے میں نقصان نظر آرہا ہو؟
جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے اس ضمن میں قرآن حکیم کا فلسفہ یہ ہے کہ نیکی اور بدی کا بنیادی شعور فطرتِ انسانی میں موجود ہے.اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کو ظاہری استعدادات دی ہیں ‘جیسے سماعت ‘بصارت ‘قوتِ گویائی ‘تعقّل اور اسی نوع کی دوسری استعدادات ہیں‘ویسے ہی فطرتِ انسانی میں کچھ باطنی استعدادات بھی مضمر ہیں جن کو دے کر انسان دنیا میں بھیجا گیا ہے.ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ فطری طور پر جانتا ہے کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے. سورۃ الشّمس میں اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: وَ نَفۡسٍ وَّ مَا سَوّٰىہَا ۪ۙ﴿۷﴾فَاَلۡہَمَہَا فُجُوۡرَہَا وَ تَقۡوٰىہَا ۪ۙ﴿۸﴾ ’’اور شاہد ہے نفسِ انسانی اور جو اِس کو سنوارا اور بنایا (اور جو اِس کی نوک پلک درست کی).پھر اس میں الہامی طور پر فجور و تقویٰ (خیروشر) کا علم و دیعت کر دیا.‘‘ اسی لیے نیکی کے لیے قرآن مجید کی ایک کثیر الاستعمال اصطلاح’’معروف‘‘ ہے‘یعنی جانی پہچانی چیز‘ اور بدی کے لیے ’’منکر‘‘ ہے‘ یعنی اجنبی سی بات ‘جسے فطرتِ انسانی قبول نہیں کرتی اور اس سے اِباء کرتی ہے.قرآن مجید کے نزدیک یہ دائمی اَقدار ہیں.چنانچہ سچ بولنا ہمیشہ سے نیکی تصور کیا گیا ہے اور آج بھی اسے نیکی سمجھا جاتا ہے. جھوٹ بولنے والے کا ضمیر یہ محسوس کر رہا ہوتا ہے کہ وہ ایک بُرا کام کر رہا ہے .خواہ وہ اپنے آپ کو کسی مجبوری کے حوالے سے قائل کر لے‘لیکن دل کی گہرائی میں جانتا ہے کہ میں ایک بُرا کام کر رہا ہوں.الغرض یہ دائمی اور بدیہی اقدار ہیں.علامہ اقبال مرحوم کا یہ شعر نیکی اور بدی کے ان بنیادی تصورات کے ضمن میں صدفی صد راست آتا ہے کہ : ؎
زمانہ ایک‘ حیات ایک‘ کائنات بھی ایک
دلیلِ کم نظری قصّۂ قدیم و جدید!
مادّی احوال بدلتے رہتے ہیں‘سطحی سے تغیر و تبدّل ہوتے رہتے ہیں‘تہذیب و تمدن میں ارتقاء ہوتا رہتا ہے‘لیکن فطرتِ انسانی کے محکمات اور بدیہیات غیر متبدّل اور دائم وقائم ہیں. دوسری بات کے لیے میں مغربی فلاسفروں میں سے کانٹ کا حوالہ دوں گا. اس نے ’’Critique of Pure Reason‘‘ کے نام سے جو پہلی کتاب لکھی اس میں اس نے ثابت کیا کہ وجودِ باری تعالیٰ کے لیے اہل منطق نے جتنے دلائل فراہم کیے ہیں‘ان کو خود منطق کاٹ دیتی ہے.اُن میں سے کوئی دلیل تنقید اور محاکمہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی‘اس کے سامنے کھڑی نہیں رہ سکتی.لیکن اس کے بعد اس نے دوسری کتاب’’Critique of Practical Reason‘‘ لکھی.اس میں اس نے یہ بات پورے شدّومدّ کے ساتھ پیش کی کہ انسانی اخلاق کے لیے کوئی بنیاد نہیں ہے جب تک کہ وہ خدا کو نہ مانے.اس کے بغیر اخلاقیات کے لیے کوئی اساس ممکن نہیں.لہذا اگر انسان کو اخلاقی رویّہ اختیار کرنا ہے تو اسے خدا کو ماننا ہو گا‘اس کے بغیر انسان کو کوئی اخلاقی تشخص اور تمکن حاصل ہو ہی نہیں سکتا.
چنانچہ یہی ہے وہ حقیقتِ نفس الامری جو اِس آیت میں بیان فرمائی گئی ہے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالآخر ۃنیکی اور بھلائی کے لیے قوتِ محرکہ فراہم کرتے ہیں. قرآن انسان سے کہتا ہے کہ نیک بنو‘اچھے اور بھلے کام کرو ‘کیونکہ اللہ کو نیک لوگ پسند اور محبوب ہیں.حدیث کہتی ہے کہ جملہ مخلوقات اللہ کے کنبے کے مانند ہیں‘لہذا جو لوگ اللہ کی رضا کے جویا ہیں ان کو خدمتِ خلق کے لیے ہر دم کمر بستہ رہنا چاہیے!الغرض نیکی کے لیے قوتِ محرکہ کا منبع اور سرچشمہ ہے ایمان باللہ.واضح رہے کہ یہ مثبت قوتِ محرکہ ہے‘اس لیے کہ محبت ایک مثبت جذبہ ہے اور ایمان باللہ کا حاصل محبتِ الٰہی ہے.لیکن سب جانتے ہیں کہ تمام انسان عقل و شعور کی سطح کے اعتبار سے برابر نہیں.ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو محبت کے رمز آشنا نہیں ہوتے.ان کے لیے ضرورت ہے کسی اور قوتِ محرکہ کی جو؏
’’نوارا تلخ تر می زن چوں ذوقِ نغمہ کمیابی!‘‘
کے مصداق ایک تازیانے کا کام دے‘ اور وہ قوتِ محرکہ ہے ایمان بالآخرۃ ‘یعنی accountability کا احساس کہ ایک دن آنے والا ہے جب محاسبہ ہو گا‘ ہمیں ایک ایک عمل کی جوابدہی کرنی پڑے گی.اس ایمان بالآخرۃ کو آپ چاہیں تو ایمان باللہ کے مقابلے میں منفی قوتِ محرکہ کہہ سکتے ہیں‘کیونکہ اس کی بنیاد محاسبۂ اُخروی کے خوف پر ہے.