حضرت مولانا عنایت اللہ شاہ بخاری (رحمۃ اللہ علیہ)

امیر جمعیت اشاعت التوحید والسنۃ


حضرت شاہ صاحبؒ نے خطبہ مسنونہ کے بعدسورۂ رعد کی حسب ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم 
بسم اللہ الرحمن الرحیم

﴿ لَہٗ دَعۡوَۃُ الۡحَقِّ ؕ وَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ لَا یَسۡتَجِیۡبُوۡنَ لَہُمۡ بِشَیۡءٍ اِلَّا کَبَاسِطِ کَفَّیۡہِ اِلَی الۡمَآءِ لِیَبۡلُغَ فَاہُ وَ مَا ہُوَ بِبَالِغِہٖ ؕ وَ مَا دُعَآءُ الۡکٰفِرِیۡنَ اِلَّا فِیۡ ضَلٰلٍ ﴿۱۴﴾ ﴾ 

اس کے بعد حضرت شاہ صاحب قبلہ نے اپنے موضوع’’توحید فی الحقیقت کیا ہے؟‘‘ پر گفتگو سے قبل بطور تمہید فرمایا:

’’بزرگو!بھائیو!عزیزو!ہمارے محترم و مکرم جناب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے ماشاءاللہ ولا حول ولا قوۃ الا باللہ،اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جس خوبی،اخلاص،اور سوز اور دردِ دل سےتوحید فی العمل یا توحید فی الطلب کو مفصل اور پورے اجزاء کے ساتھ بیان فرمایا ہے اور پھر الحمد للہ کتاب و سنت کےپورے حوالے سے اور صحیح تشریح سے آپ حضرات تک فصل الخطاب کے ساتھ پیغام ِ حق پہنچایا ہے،اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے.میرا یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے جناب محترم کی تقریر سنی ہے.اللہ تعالیٰ ان کی عمر میں برکت دے.اللہ تعالیٰ دین حق پر، دین قیم پر،دین خالص پر جناب مکرم کو استقامت اور اخلاص کی نعمت نصیب فرمائے اور جس ولولے ،جس جزبے،جس محنت کے ساتھ یہ رضائے الٰہی کو مقصود بنائے ہوئےدعوتِ حق کا کام کر رہے ہیں،تبلیغ کا حق ادا کر رہے ہیں،جس کی وجہ سے اپنوں کی بھی باتیں سن رہے 
ہیں،غیروں کے طعن و تشنیع بھی برداشت کر رہے ہیں،اس کام میں وقتا ً فوقتاً جو تکالیف اٹھاتے اور جھیلتے ہیں وہ ان کے لئے توشۂ آخرت بنائے،اور اللہ تعالیٰ اس دعوت کو کامیاب فرمائےاورہم سب مسلمانوں کو توفیق دےاور اپنے فضل و رحمت سے ہماری قسمت میں یہ سعادت نصیب فرما دے کہ،اللہ اللہ،جس طرح ڈاکٹر صاحب دل وجان سے کوشش کر رہے ہیں کہ دین توحید اجتماعی رنگ میں غالب اور نافذ ہو جائے،دین پورا کا پورا قائم ہو،اسی طرح ہم بھی اس کام میں لگ جائیں.ان کی تو کوشش ہے،محنت ہے، ان کے ساتھیوں کی محنت ہے اور کوشش ہے.اللہ تعالیٰ اس کو کامیاب فرمائے.یہ اس کے ہاتھ میں ہے.البتہ ہمیں وہ سب کچھ کرنا چائیے جو ہم سے بن سکے.اس کے مصداق تو ہم بنیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سےاور اس کی قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں کہ وہ کامیابی عطا فردے.اس کے ہاتھ میں ہے کہ ﴿ کَمۡ مِّنۡ فِئَۃٍ قَلِیۡلَۃٍ غَلَبَتۡ فِئَۃً کَثِیۡرَۃًۢ بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۲۴۹﴾﴾ صبر و استقامت اسی طرح جاری رہاتو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کوئی بعید نہیں کہ وہ کامیابی عطا فرما دے.ورنہ ایک مسلمان کہلانے والے کا جو فریضہ ہے اس کیلئے تو ماشاءاللہ ڈاکٹر صاحب نے تن من کی بازی لگائی ہوئی ہے.

یہ محض رسمی الفاظ نہیں بلکہ میرا حقیقی تاثر ہے کہ مجھے ان کی تقریر سن کر الحمدللہ ثم الحمد للہ سب سے بڑی خوشی ،سب سے بڑی راحت اور سب سے بڑا اطمینان دل کو ہوا کہ یا اللہ اس دور میں تو نے اپنے فضل و کرم سے کسی کو تو یہ توفیق بخش دی ہے کہ وہ تیرے دین خالص کے لئے ،دین حق کے لئے ،اجتماعی طور پر اسے کامیاب بنانے کے لئے کوشش کر رہا ہے.اے اللہ!تو اس کو بار آور فرمامایوسی کے حالات تو ہوں گے.لیکن ﴿وَ مَنۡ یَّقۡنَطُ مِنۡ رَّحۡمَۃِ رَبِّہٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوۡنَ ﴾ اللہ کی رحمت سے مایوسی گمراہی اور کفر ہے. ﴿وَ لَا تَایۡـَٔسُوۡا مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ لَا یَایۡـَٔسُ مِنۡ رَّوۡحِ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿۸۷﴾﴾ اللہ کی رحمت سے صرف کافر لوگ ہی مایوس ہوتے ہیں.باقی کچھ لوگ بعض اوقات کہہ دیتے ہیں کی موجودہ معاشرے میں اس کام کی کامیابی مشکوک ہے.یہ خیال ہی سرے سے غلط ہے .دنیا میں کامیابی ہو یا نہ ہو،لیکن اللہ کے نزدیک کرنے کا کام یہی ہے.میں کون اور ڈاکٹر صاحب کون!نبی اکرم نے فرمایاکہ قیامت کے دن انبیاء(علیہم السلام)میں سے بعض نبی جن کی صداقت پر،جن کی ذہانت پر ،جن کی امانت پر،جن کی محنت پر،جن کی دعوت پر،جن کے اخلاص پر،جن کی استقامت پر،جن کی قربانیوں اور ایثار پرکسی کو اعتراض کا موقع نہیں مل سکا،تو اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی پاک ؐ نے فرمایاکہ ان میں سے کسی کےساتھ دواور کسی کے ساتھ ایک اُمتی ہوگاجنہوں نے دعوت کو پوری طرح قبول کیا ہوگااور کسی کے ساتھ ایک بھی نہیں.

یہ تو حدیث ہے اور صحیح ہے.اللہ،اللہ،قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوحؑ کا شکوہ نقل فرمایا ہے: ﴿رَبِّ اِنِّیۡ دَعَوۡتُ قَوۡمِیۡ لَیۡلًا وَّ نَہَارًا ۙ﴿۵﴾﴾ اے میرے مالک،اے میرے آقا اور مختار!میں نے خالص توحیداور صرف تیری عبادت کی دعوت دی اور اس کام کیلئے میں نے نہ رات چھوڑی نہ دن چھوڑا.لیکن نتیجہ! ﴿فَلَمۡ یَزِدۡہُمۡ دُعَآءِیۡۤ اِلَّا فِرَارًا ﴿۶﴾﴾ یہ میری دعوت سن کر راتوں کو بھی بھاگ کھڑے ہوتے اور دن کو بھی.آگے آیاکہ ﴿ثُمَّ اِنِّیۡۤ اَعۡلَنۡتُ لَہُمۡ وَ اَسۡرَرۡتُ لَہُمۡ اِسۡرَارًا ۙ﴿۹﴾﴾ میں نے مجلسوں میں اعلانیہ بھی دعوت دیجیسے ڈاکٹر صاحب نے آپ حضرات کے سامنےدعوت پیش کیاور میں نے پوشیدہ ایک ایک کے پاس جا کر بھی دعوت دی،تاکہ مجلس میں بات سمجھ میں نہ آئی ہو تو اس طرح آجائے .الغرض دعوت پہنچانے میں مَیں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی.

نہ رات چھوڑی نہ دن چھوڑا،نہ اعلان چھوڑا نہ اسرار چھوڑا،اپنا تمام آرام تج دیاڈاکٹر صاحب محترم کا نام بھی آگیالیکن ان کی ساڑھے نو سو سال کی دعوت پر کتنے لوگ ایمان لائے!کتنے لوگوں نے اسے قبول کیا !اللہ تعالیٰ کی شہادت ہےکہ نوح علیہ السلام کے اخلاص میں ،ان کی استقامت میں،ان کے ایثار میں،ان کی صداقت میں،ان کی شجاعت میں نہ کمی تھی نہ کسی کو شک تھا.لیکن اللہ کی شہادت سن لو کہ اس سب کا نتیجہ کیا نکلا! ﴿ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَہٗۤ اِلَّا قَلِیۡلٌ ﴾ ’’بہت ہی تھوڑے آدمی ان پر ایمان لائے‘‘. انہوں نے اللہ کے حکم سے جو کشتی بنائی وہ کتنی بڑی ہوگی!آپ خود تصور کر لیں.بعض روایات میں آتا ہے کہ کل اسّی(۸۰) افراد تھے. ذرا سوچو کہ ساڑھے نو سو برس کی دعوت کا نتیجہ یہ تھا.اگر فی برس ایک آدمی بھی دعوت قبول کرتا تو ساڑھے نو سو تو آتے.چلو دس دس برس میں ایک آدمی آتاتو بھی پچانوے(۹۵)تو ہوتے.لیکن بعض روایات میں اسّی(۸۰)سے بھی کم تعداد آئی ہے،کلہم چالیس(۴۰) افراد.ایک اور روایت بھی ہے جس میں نو افراد کی تعداد بیان ہوئی ہے.

اللہ،اللہ،کام کرنے والا یہ نہ سوچے کی میرے ساتھ لوگ آتے ہیں یا نہیں آتے.دیکھنے والے بھی یہ نہ سوچیں کہ اس کے ساتھ فلاں بزرگ ملے یا نہیں ملے.یہ دیکھو کہ کام صحیح ہے،کتاب و سنت کے مطابق ہے،اللہ تعالیٰ کے قرآن کے مطابق ہے،نبی اکرم کے ارشاداتِ گرامی کے مطابق ہےتو چشم ماوادلِ ما روشن!پھر قبول کرنا چاہئے.زیادہ لوگ ہوں یا نہ ہوں.اس میں اعلیٰ قسم کے لوگ ہوں یا نہ ہوں.وہ معاملہ نہ ہو جو حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے آنجناب ؑ کے ساتھ کیا تھا: ﴿ وَ مَا نَرٰىکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِیۡنَ ہُمۡ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاۡیِ ۚ ﴾ ’’(اے نوحؑ!) ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے سردار لوگ،بڑےبڑے ذہین لوگ،بڑےبڑے باوجاہت لوگ،وہ تو تیرے ساتھ آئے نہیں.ہماری قوم کے کچھ ادنی ٰ لوگ،کم عقل اور بےوقوف لوگ ہیں جو تیرے پیچھےلگ گئے ہیں.اللہ اللہ!مَیں آپ لوگوں کو مخلصانہ مشورہ دوں گا کہ ڈاکٹر صاحب کی دعوت کا ساتھ دیں.اس میں ہماری دنیا اور عاقبت کی بھلائی ہے‘‘.

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ. اَمَّا بَعْدُ!

فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم 

شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّ الَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَ مَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِ ؕ کَبُرَ عَلَی الۡمُشۡرِکِیۡنَ مَا تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَیۡہِ ؕ اَللّٰہُ یَجۡتَبِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَہۡدِیۡۤ اِلَیۡہِ مَنۡ یُّنِیۡبُ ﴿۱۳
وَ مَا تَفَرَّقُوۡۤا اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃٌ سَبَقَتۡ مِنۡ رَّبِّکَ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی لَّقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اُوۡرِثُوا الۡکِتٰبَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ مُرِیۡبٍ ﴿۱۴
فَلِذٰلِکَ فَادۡعُ ۚ وَ اسۡتَقِمۡ کَمَاۤ اُمِرۡتَ ۚ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ ۚ وَ قُلۡ اٰمَنۡتُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنۡ کِتٰبٍ ۚ وَ اُمِرۡتُ لِاَعۡدِلَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ رَبُّنَا وَ رَبُّکُمۡ ؕ لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَ لَکُمۡ اَعۡمَالُکُمۡ ؕ لَا حُجَّۃَ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ ؕ اَللّٰہُ یَجۡمَعُ بَیۡنَنَا ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿ؕ۱۵
وَ الَّذِیۡنَ یُحَآجُّوۡنَ فِی اللّٰہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا اسۡتُجِیۡبَ لَہٗ حُجَّتُہُمۡ دَاحِضَۃٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ وَ عَلَیۡہِمۡ غَضَبٌ وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ﴿۱۶
اَللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ وَ الۡمِیۡزَانَ ؕ وَ مَا یُدۡرِیۡکَ لَعَلَّ السَّاعَۃَ قَرِیۡبٌ ﴿۱۷
یَسۡتَعۡجِلُ بِہَا الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ بِہَا ۚ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مُشۡفِقُوۡنَ مِنۡہَا ۙ وَ یَعۡلَمُوۡنَ اَنَّہَا الۡحَقُّ ؕ اَلَاۤ اِنَّ الَّذِیۡنَ یُمَارُوۡنَ فِی السَّاعَۃِ لَفِیۡ ضَلٰلٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿۱۸
اَللّٰہُ لَطِیۡفٌۢ بِعِبَادِہٖ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ ہُوَ الۡقَوِیُّ 
الۡعَزِیۡزُ ﴿٪۱۹﴾مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ ﴿۲۰﴾اَمۡ لَہُمۡ شُرَکٰٓؤُا شَرَعُوۡا لَہُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا لَمۡ یَاۡذَنۡۢ بِہِ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ لَا کَلِمَۃُ الۡفَصۡلِ لَقُضِیَ بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِیۡنَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿۲۱﴾ (الشوری: ۱۳تا۲۱)

خواتین و حضرات! ان نشستوں میں ہم سورۃ الشوریٰ کے بعض منتخب مقامات کا مطالعہ کریں گے. میرے حقیر مطالعہ کی رو سے یہ سورۂ مبارکہ اقامت دین کے خاص موضوع پر چوٹی کا درجہ رکھتی ہے. نبی اکرم نے بعض سورتوں کے لیے ذروۂ سنام کا لفظ استعمال فرمایا ہے. چنانچہ قرآن مجید کی مختلف سورتیں مختلف موضوعات پر چوٹی کے مقام کی حامل ہیں. انگریزی میں اسے اس موضوع کےClimax یعنی نقطۂ عروج سے تعبیر کیا جا سکتا ہے. جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ میرے نزدیک اقامت ِ دین کے خاص موضوع پر اس سورۂ مبارکہ کو ذروۂ سنام کامقام حاصل ہے. 

مصحف کی ترتیب

میں چاہتا ہوں کہ سورۃ الشوریٰ کے پیش نظر مقامات کے درس سے قبل اس سورۃ کے بارے میں اور قرآن کی موجودہ ترتیب کے متعلق بعض اہم اور بنیادی باتیں آپ کے گوش گزار کر دوں، جو ان شاء اللہ العزیز قرآن حکیم کے مطالعہ اور ا س میں غور و فکر اور تدبر کے لیے قرآن مجید کے ہر طالب علم اور قاری کے لیے مفید ثابت ہوں گی. 

مکی اور مدنی سورتیں

یہ تو آپ کو معلوم ہی ہو گا کہ سورۃ الشوریٰ مکی سورۃ ہے. آپ اس بات سے بھی واقف ہوں گے کہ قرآن مجید کا تقریباً دو تہائی حصہ مکی سورتوں پر اور بقیہ تقریباً ایک تہائی حصہ مدنی سورتوں پر مشتمل ہے. ایسا نہیں ہے کہ قرآن مجید میں پہلے مکی اور بعدمیں مدنی سورتیں یکجا جمع کر دی گئی ہوں. پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ مکیات اور مدنیات میں جو نزولی ترتیب ہے اس کے اعتبار سے قرآن حکیم کو مرتب کیا گیا ہو. یہ بات قرآن مجید کے ہر طالب علم کو معلوم ہے کہ مصحف کی ترتیب نزولی ترتیب سے مختلف ہے. 

ازلی و ابدی ترتیب

البتہ یہ بات جان لیجیے کہ اصل میں قرآن حکیم کی ازلی و ابدی ترتیب یہی ہے جو مصحف کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے. یہی ترتیب توقیفی ہے اور قرآن مجید کی یہی ترتیب لوح ِمحفوظ کے مطابق ہے. البتہ نبی اکرم پرقرآن مجید کا جو نزول ہوا ہے وہ ایک دوسری ترتیب سے ہوا ہے. یہ ان خاص حالات کے مطابق ہوا ہے جو آنحضور کی دعوت اور آپؐ کی جدوجہد کے دوران آپؐ کو مختلف مواقع پر مختلف مراحل میں پیش آئے. لہذا ترتیب نزولی کا تعلق خاص حالات سے اور خاص زمانے سے ہے. گویا خاص زمان و مکان اس نزول کے پس منظر میں ہیں. لیکن جس ترتیب سے قرآن مجید نبی اکرم امت کو عطا فرما کر دنیا سے تشریف لے گئے ہیں وہ لوح ِمحفوظ کی ترتیب کے عین مطابق ہے، اور یہ ہے ازلی و ابدی ترتیب… اسی کے مطابق آنحضور کی وفات سے قبل کے رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو دوبار قرآن مجید کا دَور کرایا تھا. 

قرآن مجید کا نظم

قرآن فہمی اور خاص طور پر اس میں تدبر کے لیے مصحف کی موجودہ ترتیب، اس کے نظم اور سورتوں کے باہمی ربط و تعلق کو سمجھنا بہت اہم ہے. چنانچہ اس پر ہر دور میں کچھ نہ کچھ کام ہوتا رہا ہے. لیکن واقعہ یہ ہے قرآن مجید اور اس کی سورتوں کا جو اندرونی نظام اور ان کا جو باہمی ربط وتعلق ہے، اس پر برعظیم پاک و ہند کی ماضیٔ قریب کی ایک شخصیت نے نہایت عمیق تدبر اور تفکر کیا ہے اور اس نظام اور باہمی ربط و تعلق کو واضح کرنے کے لیے انتہائی قابل قدر کام کیا ہے. یہ شخصیت تھے مولانا امام حمید الدین فراہی رحمہ اللہ علیہ جن کا انتقال ۱۹۳۰ء میں ہوا. مولانا فراہی علامہ شبلی نعمانی مرحوم کے بہت قریبی عزیز تھے. ان دونوں کے مابین ماموں زاد اور پھوپھی زاد بھائیوں کا رشتہ تھا. مولانا فراہی رحمہ اللہ علیہ نے عربی زبان میں قرآن مجید کے چند اجزاء کی تفسیر بھی لکھی تھی اور اس کا نام ہی مولانا مرحوم نے ’‘تفسیر نظام القرآن‘‘ تجویز کیا تھا. اس کا مقدمہ مولانا نے ’’مقدمہ تفسیر نظام القرآن‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا تھا جو نہایت اہمیت کا حامل اور میرے نزدیک قرآن فہمی کے لیے بمنزلہ کلید ہے.

نظام کے لحاظ سے قرآن کے گروپ

مولانا فراہی رحمہ اللہ علیہ کے اصولوں پر نظامِ قرآن کو واضح کرنے کے لیے ان ہی کے شاگرد رشید مولانا امین احسن اصلاحی صاحب نے ایک قدم آگے بڑھایا اور اس ضمن میں ایک رائے ظاہر کی جو خاصی وزنی ہے. ان کی رائے یہ ہے کہ قرآن حکیم کی جملہ سورتیں سات گروپوں میں منقسم ہیں اور ہر گروپ کی تشکیل اس طرح ہے کہ اس کے آغاز میں ایک یا ایک سے زائد مکی سورتیں ہیں اور ہر گروپ کا اختتام ایک یا ایک سے زائد مدنی سورتوں پر ہوتا ہے. اس طرح مکیات اور مدنیات مل کر ایک گروپ بن جاتا ہے. پھر مکیات اور مدنیات پرمشتمل دوسرا گروپ مکمل ہوتا ہے. وَقِس عَلٰی ذٰلِکَ… اس طرح قرآن حکیم کے جو سات گروپ بنتے ہیں ان میں سے ہر گروپ کا ایک اپنا مرکزی مضمون ہوتا ہے، جسے وہ ’’عمود‘‘ کہتے ہیں. عمود کی اصطلاح شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے بھی اختیار فرمائی ہے. لیکن یہ کہ قرآن حکیم کے سات گروپ ہیں اور ہر گروپ کا اپنا ایک عمود یعنی مرکزی مضمون ہے، یہ مولانا اصلاحی کی اپنی تحقیق اور تدبر کا نتیجہ ہے جو اس دور میں ہمارے سامنے آیا ہے. مولانا اصلاحی کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ ہر گروپ کے مرکزی مضمون یا عمود کے دو رُخ ہیں… (جیسے ہم کہتے ہیں تصویر کے دو رُخ) … ایک رُخ مَکّیات میں بیان ہوتا ہے اور دوسرا رُخ مدنیات میں، اور اس طرح یہ دونوں رُخ مل کر اس گروپ کے عمود یامرکزی مضمون کی تکمیل کر دیتے ہیں.

اس طرح جو سات گروپ بنتے ہیں ان میں سے پہلے گروپ میں مکی سورۃ صرف ایک ہے اور وہ ہے سورۃ الفاتحہ. یہ سورۃ مختصر ہے اور صرف سات آیات پر مشتمل ہے، اگرچہ اپنے مضامین کی جامعیت کے اعتبار سے اسے ’’قرآن عظیم‘‘ بھی کہا گیا ہے. گویا یہ سورۃ خود اپنی جگہ ایک مکمل قرآن ہے. اسے اُمّ القرآن بھی کہا گیا ہے اور اساس القرآن بھی. اس کو شافیہ اور کافیہ کے ناموں سے بھی موسوم کیا گیا ہے. اس سورۃ کے مختلف نام اس کی جامعیت و عظمت کے اظہار کے لیے رکھے گئے ہیں، حالانکہ حجم کے اعتبار سے یہ بہت چھوٹی سورۃ ہے. جبکہ اس پہلے گروپ میں چار نہایت طویل مدنیات شامل ہیں، یعنی سورۃ البقرۃ، سورۂ آل عمران، سورۃ النساء اور سورۃ المائدۃ. گویا قرآن مجید کے تقریباً چھ پارے ان چار سورتوں پر مشتمل ہیں.

دوسرے گروپ میں دو بڑی مکی سورتیں الانعام اور الاعراف اور اسی طرح دو بڑی مدنی سورتیں الانفال اور التوبۃ شامل ہیں.

تیسرے گروپ میں پہلی چودہ سورتیں سورۂ یونس سے سورۃ المؤمنون تک مکی ہیں اور آخر میں صرف ایک مدنی سورۃ ’’سورۃ النور‘‘ شامل ہے. یہ گروپ بھی چھ پاروں کے لگ بھگ بنتا ہے.

چوتھا گروپ سورۃ الفرقان سے شروع ہو کر سورۃ الاحزاب پر ختم ہوتا ہے. اس میں بھی ابتداء میں آٹھ مکی سورتیں اور آخر میں صرف ایک مدنی سورۃ سورۃ الاحزاب ہے.

پانچواں گروپ سورۂ سبا سے شروع ہو کر سورۃ الحجرات پر ختم ہوتا ہے. اس میں ابتداء میں تیرہ مکی سورتیں اور اختتام پر تین مدنی سورتیں شامل ہیں. 
پھر چھٹا گروپ سورۂ ق سے شروع ہو کر سورۃ التحریم پر ختم ہوتا ہے. اس میں پہلی سات سورتیں مکی اور اس کے بعد سورۃ الحدید سے لے کر سورۃ التحریم تک دس سورتیں مدنی ہیں. یہ وہ واحد گروپ ہے جس میں مدنیات کی تعداد مکیات سے زیادہ ہے.

آگے چلیے، پھر سورۃ الملک سے سورۃ الناس تک ساتواں گروپ ہے. اس گروپ میں چند سورتیں مستثنیٰ ہیں جو مدنی ہیں، باقی کل کی کل سورتیں مکیات پر مشتمل ہیں.

مکی سورتوں کے مرکزی مضامین و موضوعات

اب ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ مکی سورتوں کے مرکزی مضامین و موضوعات کیا ہیں؟

ا) ایمانیاتِ ثلاثہ :

مکی سورتوں کا اصل موضوع ایمان ہے. پہلے اسی کو پختہ کیا گیا ہے، اس لیے کہ ایمان پر ہی اسلام کا دارومدار ہے. ایمان کی حیثیت جڑ کی ہے اور اسلام کی حیثیت درخت کی ہے، جبکہ اعمالِ صالحہ اسی ایمان اور اسلام کے ثمرات ہیں. واقعہ یہ ہے کہ بنیادی حیثیت جڑ ہی کو حاصل ہوتی ہے جس پر درخت قائم ہوتا اور برگ وبار لاتاہے. یا یوں سمجھئے کہ جیسے ایک عمارت ہے، اس کی ایک بنیاد ہے جس پر عمارت تعمیر ہے. نظر تو عمارت آتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس عمارت کے استحکام کا سارا دارومدار بنیاد پر ہے اور وہ زیرزمین ہے، نظر نہیں آتی… پس معلوم ہوا کہ اصل شے ایمان ہے. یہ ایمان ہی اصل موضوع ہے تمام مکی سورتوں کا.

البتہ ایمان کے تین اجزاء ہیں. ایمان باللہ یا توحید، ایمان بالرسالت اور ایمان بالمعاد یا ایمان بالآخرۃ… ان تینوں اجزاء کی مکی سورتوں میں مختلف اسالیب سے دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تفہیم ہے.

ب) بنیادی اخلاقیات:

مکی سورتوں کا دوسرا بڑا اور اہم مضمون بنیادی اخلاقیات سے متعلق ہے. یعنی سچائی، ہمدردی، بھوکوں کو کھانا کھلانا، یتیموں سے حسن سلوک، حاجت مندوں کی دست گیری، ناپ اور تول میں دیانت، معاملات میں امانت، ایفائے عہد، صلہ رحمی، والدین سے حسن سلوک، زنا سے اجتناب، عصمت و عفت کی حفاظت، تبذیر و اسراف سے بچنا، چغل خوری، بہتان تراشی، شیخی و تکبر اور تفاخر و تکاثر سے پرہیز، قتل ناحق بالخصوص نومولود بچیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے پر نکیر، غلاموں پر شفقت یا ان کی آزادی کی ترغیب وغیرہ وغیرہ. مکی سورتوں میں ان اخلاقیات کی تعلیم و تلقین بھی کثرت سے اور پورے شدومد کے ساتھ مختلف اسالیب میں ملتی ہے. مکی سورتوں میں ان چیزوں پر آپ کو زور (Emphasis) ملے گا… ان میں آپ کو شریعت کے احکام نہیں ملیں گے کہ حلال و حرام کیا ہے! ان کا ذکر مدنی سورتوں میں آئے گا… مکیات میں ایمان کی دعوت کے ساتھ ساتھ بنیادی اخلاقیات کی تعلیم و تلقین بھی ملے گی، ان اخلاقیات کی جو مکہ والوں کے نزدیک بھی متفق علیہ تھے.کوئی انسان بھی دنیا میں ایسا نہیں ہو گا جو یہ تسلیم نہ کرے کہ سچ بولنا اچھا ہے، جھوٹ بولنا برا ہے اور کوئی انسان ایسا نہیں ہو گا جو یہ نہ کہے کہ وعدہ وفا کرنا اچھائی ہے اور وعدہ خلافی برائی ہے. وَقِس عَلٰی ھذا. 

ج) قصص الانبیاء و انباء الرُّسل

تیسرا بڑا مضمون جومکی سورتوں میں ہے وہ انبیاء و رسل کے حالات وواقعات ہیں. تاہم ان میں بھی ایک فرق ہے. انبیاء کرام علیہم السلام کے جو واقعات و حالات بیان ہوئے ہیں وہ بنیادی اخلاقیات کے ذیل میں آئے ہیں، جبکہ رسولوں کے واقعات و حالات اس کام کے لیے آئے ہیں جس کو امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ نے اَلتَّذْکِیْرُ بِاَیَّامِ اللّٰہ ِ کا عنوان دیا ہے، یعنی یاددہانی کرانا اللہ کے دنوں کے حوالے سے. گویا جن قوموں کی طرف اللہ کے رسول مبعوث ہوئے اور ان قوموں نے ان رسولوں کی دعوت توحید کو قبول نہیں کیا، اسے رد کر دیا، تو وہ قومیں ہلاک کر دی گئیں، نسیاً منسیاً کر دی گئیں، ان کا نام و نشان مٹا دیا گیا. جیسے قوم نوحؑ، قوم ثمود، قوم عاد، قوم شعیب ؑ اور آل فرعون وغیرہ… ان چھ اقوام کا ذکر بار بار قرآن مجید میں آیا ہے. جو حضرات قرآن حکیم کو پڑھنے والے ہیں ان کو معلوم ہے کہ ان چھ رسولوں کا ذکر، جو ان قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، یعنی حضرت نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، حضرت لوط، حضرت شعیب اور حضرت موسی علیھم السلام، مختلف اسالیب اور مختلف سیاق و سباق میں اس اعتبار سے تکرار اعادہ کے ساتھ مکی سورتوں میں آتا ہے کہ ان کے حالات تمہارے لیے مثال و نشانِ عبرت ہیں، ان سے سبق لو کہ ان رسولوں کی قوموں نے ان کی دعوت کو قبول نہ کیا تو وہ ہلاک کر دی گئیں. اگر تم نے بھی ان ہی کا سا رویہ اختیار کیا تو تم اس دنیا میں بھی عذابِ الٰہی سے دوچار ہو گے اور آخرت میں بھی عذابِ دائمی تمہارا مقدر ہو گاـ.

جن حضرات کو مطالعۂ قرآن سے دلچسپی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر ان کے لیے دو اصطلاحات کا فرق بھی واضح کر دوں… ایک اصطلاح ہے 
’’قصص النبیین‘‘ … نبیوں کے حالات کو قصصقرار دیا گیا ہے. رسولوں کے حالات کے لیے دوسری اصطلاح آتی ہے اور وہ ہے ’’انباء الرُّسل‘‘ … نبا ، بڑی اہم خبر کو کہتے ہیں. انباء الرسل کے معنی ہوں گے رسولوں کی بہت اہم خبریں… یعنی پوری پوری قوموں کا ہلاک کر دیا جانا کوئی معمولی واقعہ نہ تھا، جن کے متعلق قرآن مجید کہتا ہے: کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا وہ ایسے ہو گئے جیسے کبھی تھے ہی نہیں، کبھی بستے ہی نہیں تھے… لاَیُرٰی اِلاَّ مَسٰکِنُھُمْ اب ان کے مسکن رہ گئے ہیں، کھنڈرات ہیں، ان میں بسنے والے کہیں نظر نہیں آتے… کہیں فرمایا: قُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا یعنی ان ظالم قوموں کی جڑ کاٹ دی گئی. یہاں یہ بھی نوٹ کر لیجئے کہ قرآن میں ’’ظلم‘‘ کا لفظ عموماً شرک کے لیے استعمال ہوا ہے. جیسے: اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ 

معلوم ہوا کہ یہ بڑے اہم واقعات ہیں. تو ان کو قرآن انباء الرسل کہتا ہے اور جن انبیاء کرام کے واقعات و حالات میں ان قوموں کی ہلاکت کا ذکر نہیں ہے، بلکہ ان نبیوں کے مضبوط کردار، ان کی پاکیزہ سیرت، ان کی صداقت و دیانت، ان کی امانت، ان کی عصمت، ان کی عفت اور ان کے صبر و ثبات کا ذکر ہے، جیسے حضرت یوسف اور حضرت یعقوب علیہما السلام کے واقعات و حالات سورۂ یوسف میں بیان ہوئے ہیں، تو ان کو قرآن قصص کہتا ہے… سورۂ یوسف میں الفاظ مبارکہ ہیں:

نَحۡنُ نَقُصُّ عَلَیۡکَ اَحۡسَنَ الۡقَصَصِ بِمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ ہٰذَا الۡقُرۡاٰن
’’اے نبیؐ !) ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں.‘‘

اور سورہ ھود کے آخر میں آتا ہے: 

وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ۚ وَ جَآءَکَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَقُّ وَ مَوۡعِظَۃٌ وَّ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ 
’’یہ انباء الرسل ہیں جو ہم (اے نبیؐ !) آپؐ کو سنا رہے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے سے ہم آپؐ کے دل کو جما دیں اور تسلی دیں. اور (اے نبیؐ !) اس سورۃ میں آپ ؐ کے پاس حق آیا ہے اور ا س میں نصیحت اور یاددہانی ہے ایمان والوں کے لیے.‘‘

یعنی جن حالات سے اے نبیؐ ! آپؐ کو اور آپؐ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دوچار ہونا پڑ رہا ہے وہی حالات سابقہ رسولوں کوبھی پیش آئے تھے، لیکن بالآخر اللہ کی نصرت ان رسولوں کے شامل حال ہوئی، وہ سربلند ہوئے اور وہ قومیں جنہوں نے ان کی تکذیب کی، ان کا استہزاء کیا، تمسخر کیا، ان کی دعوت ایمان سے اعراض کیا وہ ہلاک و برباد کر دی گئیں.

میں نے جن تین اہم مضامین کا ذکر کیا ہے کہ اکثر وبیشتر مکی سورتوں میں مشترک ہیں، ان کا اعادہ کر لیجیے. (۱) دعوت ایمان. ایمان میں توحید، رسالت اور آخرت. (۲) بنیادی اخلاقیات کی تعلیم وتلقین. (۳) قصص النبیّین، جن کا تعلق بنیادی 
اخلاقیات سے ہے اور انباء الرسل جن کا تعلق دعوتِ ایمان سے ہے. یہ ہیں مکی سورتوں کے بنیادی مضامین.

گروپوں میں مضامین کی تقسیم

مضامین کی مذکورہ بالا تقسیم کے علاوہ ان میں ایک اور تقسیم بھی ہے. میں نے مکی سورتوں کے جو گروپ آپ کو گنوائے تھے ان میں سے پہلے گروپ میں مکی سورۃ صرف سورۃ الفاتحہ ہے، جو پورے قرآن کے لیے بمنزلہ دیباچہ اور مقدمہ ہے. اس کے بعد اس گروپ میں پانچ مدنی سورتیں ہیں. باقی رہ گئے چھ گروپ… ان میں آپ دیکھیں گے کہ دوسرے اور تیسرے گروپ کی مکی سورتوں میں زیادہ زور ایمان بالرسالت پر ہے. یعنی سورۃ الانعام وسورۃ الاعراف جو دوسرے گروپ کی مکیات ہیں، ان میں اور تیسرے گروپ میں سورۃ یونس سے لے کر سورۃ المؤمنون تک … اگرچہ جو تین بنیادی مضامین میں نے گنوائے ہیں وہ بھی ان مکی سورتوں میں ملیں گے، لیکن ان گروپوں کی سورتوں میں خاص زور (Emphasis) رسالت پر ملے گا. یعنی ان کا اصل عمود اور مرکزی مضمون رسالت ہے. اس کے بعد چوتھے گروپ میں سورۃ الفرقان سے لے کر سورۂ حم السجدۃ تک آٹھ اور پھر پانچویں گروپ میں سورۂ سبا سے لے کر سورۃ الاحقاف تک تیرہ مکی سورتیں ہیں. ان اکیس سورتوں کا مرکزی مضمون یا عمود توحید ہے. ان میں پہلے مضامین بھی موجود ہیں لیکن اصل زور توحید پر ہے.

آخری جو دو گروپ ہیں ان میں چھٹے گروپ میں مکیات سورۂ ق سے لے کر سورۃ الواقعۃ تک اور ساتویں گروپ یعنی سورۃ الملک سے جو مکیات کا طویل سلسلہ ہے اس میں چند سورتوں کو چھوڑ کر ان کا مرکزی مضمون یا عمود ہے آخرت کا انذار، آگاہ کرنا، خبردار کرنا کہ یہ دنیا فانی ہے، اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے، جس میں اس دنیا کی زندگی کے تمام اعمال ہی کا نہیں بلکہ نیتوں اور ارادوں کا بھی حساب 
کتاب ہو گا، جواب دہی کرنی ہوگی، پھر عدالت ِ الٰہی سے جزا و سزا کے فیصلے صادر ہوں گے، یا جنت ہو گی ہمیشہ کے لیے یا آگ ہو گی دائمی… ان دو ہی گروپوں میں یہ سورتیں ملتی ہیں: اِذَا وَقَعَتِ الۡوَاقِعَۃُ ۙ﴿۱﴾لَیۡسَ لِوَقۡعَتِہَا کَاذِبَۃٌ ۘ﴿۲﴾ کہیں فرمایا: اَلۡحَآقَّۃُ ۙ﴿۱﴾مَا الۡحَآقَّۃُ ۚ﴿۲﴾ کہیں کہا: اَلۡقَارِعَۃُ ۙ﴿۱﴾مَا الۡقَارِعَۃُ ۚ﴿۲﴾ اسی طرح ہے: عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ ۚ﴿۱﴾ عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ ۙ﴿۲﴾ الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ مُخۡتَلِفُوۡنَ ؕ﴿۳﴾ اور: ہَلۡ اَتٰىکَ حَدِیۡثُ الۡغَاشِیَۃِ ؕ﴿۱﴾وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ ۙ﴿۲﴾ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ ۙ﴿۳﴾ تَصۡلٰی نَارًا حَامِیَۃً ۙ﴿۴﴾ تُسۡقٰی مِنۡ عَیۡنٍ اٰنِیَۃٍ ؕ﴿۵﴾ 

تو آخری دو گروپوں کی مکیات میں زیادہ زور ہے اندازِ آخرت پر… درمیانی دو گروپوں کا مرکزی مضمون ہے توحید اور ابتدائی دو گروپوں کی مکیات میں جس پر زیادہ زور ہے، وہ ہے رسالت.

اب آگے چلیے. مجھے اندازہ ہے کہ جن حضرات کو قرآن مجید کی ترتیب سے تعارف نہیں ہے ان کو یہ باتیں قدرے بھاری معلوم ہوں گی. لیکن میں اصل میں یہ تمہیدبنا رہا ہوں اور آپ کو رفتہ رفتہ سورۃ الشوریٰ کی طرف لا رہا ہوں. میں نے ابھی جو درمیانی اکیس مکی سورتیں آپ کو گنوائیں… سورۃ الفرقان سے لے کر سورۃ حم السجدۃ تک آٹھ سورتیں اور سورۂ سبا سے لے کر سورۃ الاحقاف تک تیرہ سورتیں… ان دونوں گروپوں کی ان اکیس سورتوں میں درمیانی سورۃ کون سی ہو گی! ظاہر ہے کہ گیارہویں. تو گیارھویں سورۃ سورۂ یٰسٓ ہے، جس کو جناب محمد رسول اللہ نے قلب القرآن قرار دیا ہے، تو سورۂ یٰسٓ قرآن کا دل ہے. اس لیے کہ قرآن کا اصل موضوع تو توحید ہی ہے. ہمارا دین، دین توحید ہے. رسالت بھی اسی لیے ہے کہ توحید کی طرف دنیا کو دعوت دے . آخرت کا انداز بھی اسی لیے ہے کہ لوگ شرک سے باز آ جائیں، اس سے کلیتاً اجتناب کریں اور توحید کو اختیار کریں اور صرف اسی کا التزام کریں اور سورۂ یٰسٓ میں یہ تینوں مضامین نہایت جامعیت، بلاغت اور ایجاز و اعجاز کے ساتھ آئے ہیں. 
دین کی اصل، اس کی جڑ، اس کی بنیاد توحید ہے اور ا س کی رو سے سب سے بڑی گمراہی شرک ہے.شرک وہ گناہ ہے جس کے بارے میں سورۃ النساء میں دو مرتبہ فرمایا گیا: اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ اسی طرح توحید کے موضوع پر نہایت اہمیت کی حامل سورۃ البقرۃ میں آیۃ الکرسی ہے جس کو آنحضور نے قرآن کی تمام آیات کی سرتاج قرار دیا. پھر آخری پارے میں سورۃ الاخلاص ہے جس کو نبی اکرم نے ایک ثلث ِ قرآن کے مساوی قرار دیا. اس کا مطلب یہ ہے کہ توحید کے موضوع پر آیتوں میں سے جامع ترین آیۃ الکرسی ہے اور سورتوں میں سے جامع ترین سورۃ سورۃ الاخلاص ہے. 

توحید علمی اور توحید عملی

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے توحید کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے. ایک توحید ہے علمی توحید، توحید فی المعرفۃ یا توحید فی العقیدۃ، یعنی اللہ کو جاننا، اللہ کی ذات میں کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اللہ کی صفات میں کسی کو ساجھی قرار نہ دینا، کسی کو اس کا ضد یا ند، یا ہم پلہ، ہمسر یامد مقابل نہ بنانا… چنانچہ توحید فی الذات اور توحید فی الصفات، ان دونوں کو جمع کریں گے تو یہ ہو گی علمی توحید، معرفت الٰہی کی توحید، عقیدے کی توحید. دوسری توحید ہے توحید عملی. اس کو امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے توحید فی الطلب کا جامع عنوان دیا ہے. وہ یہ ہے کہ انسان فی الواقع ایک اللہ ہی کابندہ بن جائے. اس کی بندگی اور پرستش صرف اللہ ہی کے لیے خالص ہو جائے جو الاحد ہے. ایک خطبۂ نبویؐ میں الفاظ آتے ہیں: وَحِّدُوا اللہَ فَاِنَّ التَّوْحِیْدَ رَاْسُ الطَّاعَاتِ یہاں وَحِّدُوْا باب تفعیل سے صیغۂ امر ہے. 

’’توحید‘‘ اسی باب تفعیل سے مصدر ہے. اور تفعیل کا خاصہ یہ ہے کہ کوئی کام بڑی محنت سے، بڑے اہتمام سے، بڑے استقلال و استقرار سے کیا جائے. جیسے اعلام کے معنی ہیں کسی کو کچھ بتا دینا اور تعلیم کے معنی ہیں کسی کو کچھ سکھانا. اب 
بتانے اورسکھانے میں زمین و آسمان کا فرق ہے. آپ ایک دفعہ بتا کر فارغ ہوگئے، اب کوئی سمجھے یا نہ سمجھے ، اس کے پلے کچھ پڑے یا نہ پڑے، آپ کی ذمہ داری نہیں ہے. ابلاغ کے معنی بھی صرف پہنچانے کے ہیں، لیکن تبلیغ کے معنی ہوں گے محنت سے، اہتمام سے اور دلیل سے، تدریج سے کوئی بات کسی کو پہنچانا. چنانچہ تعلیم اور تبلیغ میں آپ کو سخت مشقت کرنی پڑتی ہے. ایک بات کو ذہن میں اتارنا مقصود ہے. تو اگر بات ایک مرتبہ سمجھ میں نہیں آئی تو اسے بار بار سمجھانا پڑے گا، اس کی توضیح کرنی ہو گی، تبیین کرنی پڑے گی، بڑی محنت سے کسی کے ذہن میں کوئی بات اتارنی اور بٹھانی ہو گی، اس ے hammer کرنا پڑے گا. یہ تعلیم ہے. اسی طرح محنت اور لگن کے ساتھ دعوت پہنچانے سے تبلیغ کا حق ادا ہو گا. اس وضاحت سے اعلام و ابلاغ اور تعلیم و تبلیغ میں جو فرق ہے وہ سمجھا جاسکتا ہے.

باب تفعیل کے خاصے کے متعلق ایک مثال اور دیکھئے . ’’انزال‘‘ کے معنی ہیں دفعتاً اتارنا. لیکن جب یہ لفظ بابِ تفعیل میں ’’تنزیل‘‘ بنے گا تو اس کے معنی ہوں گے تھوڑا تھوڑا کر کے، ٹھہر ٹھہر کر، تدریج سے اتارنا. پورا قرآن مجید رمضان میں لیلۃ القدر میں دفعتاً واحدۃً لوحِ محفوظ سے اتر کر سمائے دنیا تک آ گیا… یہ ہے انزال… 
اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الۡقَدۡرِ ۚ﴿ۖ۱﴾ اور اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ اِنَّا کُنَّا مُنۡذِرِیۡنَ ﴿﴾ اب سمائے دنیا سے آنحضور پر جو نازل ہوا تو وہ بیک وقت نازل نہیں ہوا، بلکہ تنزیلاً نازل ہوا. الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾ تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ لَا رَیۡبَ فِیۡہِ مِنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۲﴾ اور وَ اِنَّہٗ لَتَنۡزِیۡلُ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿﴾ سورۂ یٰسٓ میں فرمایا: تَنۡزِیۡلَ الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ﴿﴾ سورۃ الزمر شروع ہوتی ہے اسی تنزیل کے ذکر سے: تَنۡزِیۡلُ الۡکِتٰبِ مِنَ اللّٰہِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ﴿﴾ سمائے دنیا تک قرآن کے نزول کی شان ہے شانِ انزال اور جناب محمد رسول اللہ کے قلبِ مبارک پر نزولِ قرآن کی شان ہے شان تنزیلی. تھوڑا تھوڑا، ضرورت کے مطابق حالات و واقعات کی مناسبت سے قرآن کا نزول تنزیل ہے.

توحید کیا ہے؟

باب تفعیل کے خاصے کو پیش نظر رکھ کر لفظ ’’توحید‘‘ پر غور کریں تو توحید کا مطلب و مفہوم ہو گا. اللہ تبارک و تعالیٰ کو ذات و صفات کے لحاظ سے ایک ماننا اور جاننا. قارئین کو اندازہ ہو گا کہ توحید اختیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے. دائمی طور پر اللہ کو ایک جان کر اور ایک مان کر استقلال و استقرار کے ساتھ اس کی پیہم اطاعت کے لیے محنت کرتے رہنا بڑا مشکل کام ہے. بقول شاعر: ؎

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

پس توحید کے لیے بڑی محنت و مشقت کی ضرورت ہے. ایسا نہیں ہے کہ ایک لکیر کھنچی ہوئی تھی، پالا بنا ہوا تھا، اور کوئی اُدھر سے اِدھر آ گیا تو اسے توحید کی دولت مل گئی… اس طرح اسلام تو مل سکتا ہے، یعنی ایک شخص قانونی طور پر مسلمانوں میں شامل ہو جائے گا، لیکن یہ سمجھنا کہ وہ موحد بن گیا، خام خیالی ہے. اس لیے نبی اکرم خطبے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ: وَحِّدُوا اللہَ … یعنی اللہ کی توحید واقعتا اختیار کرو جیسے کہ اس کا حق ہے.