لیکن غور کیجیے گا. خدمتِ خلق ہی کی ایک بلند تر سطح اور بھی ہے‘ وہ بلند تر سطح ہے بھٹکے ہوؤں کو راہِ راست پر لانا‘ وہ کہ جن کی زندگی کا رخ غلط ہو گیا ہے‘ جو ہلاکت اور بربادی کی طرف بگٹٹ دوڑے جا رہے ہیں‘ جو اپنی بے بصیرتی کے باعث آگ کے الائو میں کود جانا چاہتے ہیں‘ ان کو سیدھی راہ پر لانا‘ خلقِ خدا کو راہِ ہدایت کی طرف دعوت دینا‘ اس سے بڑا خدمت خلق کا معاملہ اور کوئی نہیں! اس لیے کہ موٹی سی بات ہے کہ اگر کسی کو غذا فراہم کر کے اس کے پیٹ میں لگی ہوئی بھوک کی آگ کو آپ نے بجھا بھی دیا تو کیا ہوا‘ اگر وہ ہمہ تن آگ کے حوالے ہونے والا ہو اور آپ کو اس کی فکر نہ ہو! یہ کوئی ایسا بڑا خدمت خلق کا کام تو نہ ہوا. اگر کسی کی کوئی وقتی سی دنیاوی ضرورت آپ نے پوری کر بھی دی درآنحالیکہ آپ کو یقین ہے‘ اگر واقعتا آپ کی آنکھیں کھل چکی ہیں کہ وہ جس ڈگر پر چل رہا ہے اس کا انجام ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں تو آپ نے اس کے ساتھ کیا بھلائی کی! جیسے حضورﷺ نے فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال ایسے ہے کہ جیسے آگ کا ایک بڑا الاؤ ہے جس میں تم گر پڑنا چاہتے ہو اور مَیں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر اور تمہارے کپڑے گھسیٹ گھسیٹ کر تمہیں اس سے روکنے کی کوشش کر رہا ہوں. یہی مضمون سورۃ التحریم میں بھی وارد ہوا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا
’’اے اہل ایمان! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے!‘‘اور حضورﷺ کا وہ طرزِ عمل کہ یَا فَاطِمَۃُ بِنْتُ مُحَمَّدٍ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ ’’اے محمد (ﷺ ) کی بیٹی فاطمہ! اپنے آپ کو آگ سے بچا لے‘‘. اور یَا صَفِیَّۃُ عَمَّۃُ رَسُوْلِ اللہِ اَنْقِذِیْ نَفْسَکِ مِنَ النَّارِ ’’اے اللہ کے رسول(ﷺ ) کی پھوپھی صفیہ! اپنے آپ کو آگ سے بچا لے‘‘ کہ آپؐ اپنے گھر کے ایک ایک فرد کو گویا جہنم کی آگ سے خبردار فرماتے تھے اور اس سے خود کو بچانے کی تلقین فرمایا کرتے تھے . یہ خدمتِ خلق کی بلند ترین منزل ہے.
نبی اکرمﷺ پر جب تک وحی کا آغاز نہیں ہوا تھا آپؐ کی حیاتِ طیبہ میں خدمتِ خلق کی وہ ابتدائی منزل بتمام و کمال موجود تھی. یتیموں کی خبر گیری ہے‘ مسکینوں کی خدمت ہے‘ مسافروں کی مہمان نوازی ہے. یہ تمام چیزیں اپنی اعلیٰ ترین شکل میں حضورﷺ کی سیرت میں موجود تھیں. لیکن جب آپؐ کے پاس وہ ’’الْحَق‘‘ آ گیا ‘ ہدایتِ خداوندی نازل ہو گئی‘ جب آپؐ پر حقائق منکشف کر دیے گئے ‘ جب عالمِ آخرت کے اسرار آپؐ کی نگاہوں پرروشن کر دیے گئے‘ آپ کی ساری مساعی‘ ساری تگ دو‘ ساری دوڑ دھوپ اور خدمتِ خلق کا وہ پورا جذبہ مرتکز ہو گیا اسی پر کہ خلقِ خدا کو خدا کی بندگی کی دعوت دیں‘ راہِ ہدایت کی طرف بلائیں‘ نیند کے ماتوں کو جگائیں‘ جو لوگ مدہوش ہیں اور ہلاکت و بربادی کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں ان کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کریں. یہ چار باتیں جو درحقیقت منبر کی تین سیڑھیوں کے مشابہ ہیں‘ بیان کرنے کے بعد فرمایا: لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ تاکہ تم فلاح پاؤ. ’’لَعَلَّ‘‘ کے اصل معنی ہوتے ہیں ’’شاید‘‘ ترجمہ یوں ہو گا ’’شاید کہ تم فلاح پاؤ‘‘ اور یہ ’’شاید‘‘ کا لفظ جب شاہانہ انداز میں کلامِ الٰہی میں آتا ہے تو اس میں حتمیت کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے‘ جیسے کوئی بادشاہ اگر کسی سے کہے کہ اگر تم یہ کرو تو شاید ہم تمہارے ساتھ یہ معاملہ کریں‘ تو درحقیقت یہاں یہ ’’شاید‘‘ ایک مکمل وعدے کی صورت اختیار کر جاتا ہے. تو فرمایا: ’’ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ‘‘ یہ سب کچھ کرو گے تو فلاح سے ہمکنار ہو گے. یہ کرو گے تو کامیابی حاصل کر سکوگے.