وہ دوسری سیڑھی کیا ہے : وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ ’’اپنے ربّ کی بندگی کرو!‘‘ یعنی اس کے عبد اور غلام بن کر زندگی بسر کرو! اس (تعالیٰ) کو اپنا آقا سمجھو اور اپنے آپ کو اس کا مملوک جانو! اپنے کل وجود کا مالک اسی کو سمجھواور اپنی پسند وناپسند‘ اپنی چاہت‘ اپنی مرضی‘ ان سب سے اس کی اطاعت کے حق میں دستبردار ہو جاؤ! یہ اطاعت تمہاری پوری زندگی پر حاوی ہونی چاہیے‘ بغیر اس کے کہ اُس کے کسی جزو کو اُس سے مستثنیٰ کیا گیا ہو! اسی کی مرضی کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالو! اور یہ پورا طرزِ عمل اختیار کرو اللہ کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر!اس منتخب نصاب میں اس سے پہلے ایک سے زائد مقامات پر عبادت کی حقیقت کی طرف توجہ دلائی جا چکی ہے. نماز‘ روزہ‘ زکو ٰۃ اور حج جنہیں ہم عبادات کہتے ہیں‘ سب اصلاً اسی ہمہ گیر عبادت کے لیے مطلوب ہیں. یہ اس عبادتِ عظیم کی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے فرض کیے گیے ہیں. نسیان اور غفلت کا علاج نماز سے کیا گیا. اپنے نفس کے تقاضوں کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے روزہ عطا کیا گیا. مال کی محبت کی گرفت دل سے کم کرنے کے لیے زکو ٰۃ فرض کی گئی. اور ان تمام مقاصد کو پورا کرنے والی ایک جامع اور عظیم عبادت حج کی شکل میں تجویز کی گئی. لیکن غور کیجیے کہ ان سب کا مقصد یہی تو ہے کہ بندگی ٔ ربّ کا تقاضا پورا کرنے میں جو رکاوٹیں اور موانع ہیں انسان کے اندر ان سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت پیدا ہو جائے. لہذا ارکانِ اسلام کی پہلی سیڑھی کے بعد ’’عبادتِ ربّ‘‘ کی یہ دوسری سیڑھی منطقی طور پر بہر مربوط ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ.