سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ کا براہِ راست مطالعہ کرنے سے قبل قرآن حکیم کی سورتوں کے بارے میں تعارفی و تمہیدی نوعیت کی دو مزید باتوں کی جانب توجہ کرنا مفید رہے گا. اجمالاً ان امور کی جانب اشارات پچھلے اسباق میں بھی کیے جا چکے ہیں. ایک یہ کہ جس طرح ہر گروپ کا ایک مرکزی مضمون ہوتا ہے اسی طرح قرآن حکیم کی ہر سورۃ کا ایک عمود یا axis ہوتا ہے‘ جسے ایک ایسے دھاگے سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں موتی پروئے گئے ہوں اور ان موتیوں کو ہار کی شکل دی گئی ہو.
قرآن حکیم کی ہر آیت اپنی جگہ علم و حکمت کا ایک حسین موتی ہے. لیکن جب اسے ایک سلسلۂ کلام کی لڑی میں پرو دیا جاتا ہے‘ ایک مرکزی مضمون کے ساتھ اس کا ربط قائم ہوتا ہے تو اس کے حسن میں ایک نئی شان پیدا ہوتی ہے اور اس ربط باہم سے علم و حکمت کے نئے نئے پہلو آشکارا ہوتے ہیں. اس اعتبار سے قرآن حکیم کی ہر سورۃ پر غور کرنے کے لیے اس سورۃ کے مرکزی مضمون اور عمود کا تعین ضروری ہے. پھر ہر آیت پر اپنی جگہ غور کرنے کے بعد اس مرکزی مضمون کے ساتھ ان آیات کے ربط کو تلاش کرنا تدبر ِ قرآن کے نقطہ نگاہ سے نہایت اہم ہے.
دوسری بات یہ ہے کہ قرآن حکیم کی اکثر سورتیں جوڑوں کی شکل میں ہیں. قرآن حکیم میں یہ اسلوب نظر آتا ہے کہ کسی ایک مضمون کو جس کے دو رُخ یا دو پہلو ہوں‘ کسی ایک ہی سورۃ میں بیان کرنے کی بجائے بالعموم دو سورتوں میں منقسم کر دیا جاتاہے اور وہ دو سورتیں گویا ایک جوڑے (pair) کی صورت اختیار کر لیتی ہیں. اس مضمون کے ایک پہلو پر گفتگو اُس جوڑے میں شامل ایک سورۃ میں اور دوسرے پر بحث دوسری سورۃ میں ہوتی ہے. اور جیسے کہ محاورتا ً کہا جاتا ہے کہ ہرتصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں اور ان کے اجتماع سے تصویر مکمل ہوتی ہے‘ اسی طرح دونوں سورتیں مل کر ایک مضمون کی تکمیل کرتی ہیں.
اس کی ایک نمایاں مثال ’’مُعوَّذتَین‘‘ کی ہے جو قرآن حکیم کی آخری دو سورتیں ہیں. ان کا مضمون ایک ہی ہے‘ یعنی ’’تعو ذ‘‘. ان چیزوں کو کہ جن سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی تلقین کی گئی ہے‘ دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے. ایک وہ آفات ہیں جو انسان پر خارج سے حملہ آور ہوتی ہیں اور بعض وہ ہیں جو انسان کے اپنے باطن سے اُبھرتی ہیں. پہلی قسم کی آفات سے سورۃ الفلق میں اللہ کی پناہ حاصل کرنے کا ذکر ہے اور دوسری نوع کی آفات سے سورۃ الناس میں. اس طرح سے ’’مُعوَّذتَین‘‘ کی شکل میں قرآن حکیم کی سورتوں کا ایک حسین و جمیل جوڑا وجود میں آگیا.
اسی طرح کا معاملہ سورۃ المزّمّل اور سورۃ المدّثّر کا ہے. ان دونوں سورتوں کے ناموں میں بھی لفظی مشابہت موجود ہے اور مضامین کے اعتبار سے بھی گہری مماثلت نظر آتی ہے. ایک میں نبی اکرمﷺ کو قیام اللیل کی شکل میں ذاتی ریاضت کا حکم دیا جا رہا ہے: یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ ۙ﴿۱﴾قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا ۙ﴿۲﴾ ’’اے کپڑے میں لپٹنے والے! رات کو (نماز میں) کھڑے رہا کرو مگر تھوڑا سا‘‘.یہ آپؐ کی ذاتی تربیت کے لیے ضروری ہے. اس لیے کہ : اِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا ﴿۵﴾ ’’یقیناہم آپ پر عنقریب بڑی بھاری بات ڈالنے والے ہیں‘‘.اس کے لیے آپؐ کو ذاتی تربیت کے اس مرحلے سے گزرنا ہو گا. اور دوسری سورۃ میں اس مشن کے لیے کھڑے ہونے کا ذکر ہے کہ جس کے لیے آپﷺ کو بھیجا گیا تھااور جس کے لیے یہ ساری تیاری درکار تھی. فرمایا گیا: یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ ’’اے لحاف میں لپٹنے والے! اٹھیے اور خبردار کیجیے! اور اپنے ربّ کی بڑائی (کا اعلان) کیجیے!‘‘یعنی اب اپنے مشن اور مقصد کی تکمیل کے لیے کھڑے ہو جایئے‘ اپنی جدوجہد کا آغاز کیجیے‘اور اللہ کی کبریائی کا اعلان کیجیے! چنانچہ یہ دونوں سورتیں مل کر ایک حسین و جمیل جوڑے کی صورت اختیارکرتی ہیں.
یہ دو مثالیں ا ن سورتوں سے متعلق تھیں جن کا باہم جوڑا ہونا بہت نمایاں ہے. ان کے علاوہ بھی بہت سی سورتیں ایسی ہیں جن کا باہم جوڑا ہونا بڑی آسانی سے سمجھ میں آتا ہے. مثلاً اٹھائیسویں پارے کے آخر میں دو سورتیں سورۃ التحریم اور سورۃ الطلاق ایک انتہائی خوبصورت جوڑے کی شکل میں ہیں.یہ دونوں سورتیں عائلی زندگی کے دو مختلف پہلوؤں اور ان سے متعلقہ مسائل سے بحث کرتی ہیں. ایک پہلو شوہر اور بیوی کے مابین عدم موافقت سے متعلق ہے جس کی انتہا طلاق ہے. اور دوسرے کا تعلق شوہر اور بیوی کے مابین محبت و الفت سے ہے‘ جو اگرچہ مطلوب اور پسندیدہ ہے‘ لیکن اگر یہ معاملہ حدّ ِ اعتدال سے تجاوز کر جائے اور ایک دوسرے کے جذبات کا لحاظ اس حد تک کیا جانے لگے کہ حدود اللہ ٹوٹنے لگیں تو یہ دوسری انتہا ہے. سورۃ الطلاق میں ایک انتہا سے بحث ہوئی اور سورۃ التحریم میں دوسری انتہا زیر ِبحث آئی.
اسی طرح کا معاملہ سورۃ المنافقون اور سورۃ التغابن کا ہے. یہ دونوں سورتیں ہمارے اس منتخب نصاب میں شامل ہیں. ایمانِ حقیقی اور اس کے ثمرات و مضمرات کے موضوع پر سورۃ التغابن قرآن حکیم کی جامع ترین سورۃ ہے. اگرچہ قانونی سطح پر ایمان کے مقابل کا لفظ ’’کفر‘‘ ہے لیکن حقیقی اعتبار سے ایمان کے مقابل کا لفظ ’’نفاق‘‘ ہے. نفاق دراصل فقدانِ ایمان کی باطنی کیفیت کا نام ہے. چنانچہ مصحف میں سورۃ التغابن سے متصلاً قبل جڑی ہوئی سورۃ المنافقون موجود ہے جو نفاق کے موضوع پر قرآن حکیم کی جامع ترین سورۃ ہے. نفاق کے اسباب اور اس کے نقطہ ٔ آغاز سے لے کر اس کے انجام اور اس کے علاج تک تمام اہم مباحث اس ایک چھوٹی سی سورۃ میں جمع ہیں. سورۃ التغابن اور سورۃ المنافقون دونوں کو مصحف میں یکجا کر دیا گیا اور اس طرح ایک مضمون کی تکمیل ہو گئی.