بہرحال اس آخری ٹکڑے یعنی وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ کے ضمن میں اس مختصر سی وضاحت کے بعد اب یہ بات جان لیجیے کہ سورۃ الصف میں نبی اکرمﷺ کے اس مقصد بعثت کی تعیین کے بعدا س کے لازمی تقاضے کی حیثیت سے اب مضمون آ رہا ہے جہاد فی سبیل اللہ کا‘ کہ اے اہل ایمان! اب اس مشن کی تکمیل کے لیے کمر ہمت کس لو! دین اللہ کا ہے اور اس کو غالب کرنا فرضِ منصبی ہے محمد ٌرسول اللہﷺ کا. تو اب اللہ اور اس کے رسول کے ماننے والوں اور ان پر ایمان کے دعوے داروں کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ اس مقصد کے حصول اور اس مشن کی تکمیل کے لیے اپنے آپ کو لگا دیں اور کھپادیں. اس مقصد کے لیے جدوجہد کریں‘ کوششیں کریں اور اس راہ میں اپنے مال لگائیں‘اپنی جانیں کھپائیں‘ اپنی قوتیں صرف کریں اور اپنے اوقات لگائیں کہ یہ ان (۱) مسند احمد.
کے ایمان کا لازمی تقاضا ہے. یہ بات ظاہر ہے کہ اللہ کے دین کو برپا کرنا اور اسے قائم و نافذ کرنا کسی ایک فردِ بشر کا کام نہیں. یہ ایک نہایت عظیم کام اور بہت اونچانصب العین ہے اور اس کے لیے ایک بڑی بھرپور اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے. اس اجتماعی جدوجہد میں نبیﷺ کے دست و بازو بننا‘ اُن کا ساتھ دینا‘ ان کی نصرت کرنا اور جہاں اُن کا پسینہ گرا ہو وہاں اپنا خون بہا دینے کو اپنے لیے موجب فخر و سعادت جاننا ہر مسلمان کے ایمان کا تقاضا تھا. اس لیے کہ جب تک یہ کیفیت اللہ اور رسولﷺ کے ماننے کے دعوے داروں میں پیدا نہ ہو اس مشن کی تکمیل نہیں ہو سکتی. سیرت النبیؐ اور سیر صحابہؓ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ انقلاب اسی طور سے برپا ہوا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنا تن من دھن سب کچھ اس راہ میں نچھاور کر دیا. غزوۂ خندق کا تصور کیجیے جبکہ بڑا ہی کٹھن وقت آن پڑا تھا. مدینے کی چھوٹی سی بستی کو بارہ ہزار کا لشکر چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا اور اُس وقت جبکہ خندق کھودی جا رہی تھی اور پھاوڑے چل رہے تھے‘ یہ رجز اور ترانہ صحابہؓ کی زبانوں پر تھا:
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدَا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدَا
(۱)
کہ ہم ہیں وہ لوگ جنہوں نے بیعت کی ہے محمدﷺ کے ہاتھ پر ‘جہاد کی بیعت کہ جب تک ہم زندہ ہیں اور جب تک جسم و جان کا تعلق برقرار ہے ہم اس جہاد‘ اس کوشش اور اس جدوجہد میں لگے رہیں گے.