اس سورۂ مبارکہ کا پہلا حصہ چار آیات پر مشتمل ہے. پہلی آیت ہے :
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۱﴾
’’ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کی تسبیح میں مشغول ہے ‘ اوروہ زبردست کمالِ حکمت والا ہے‘‘.
یہ ایک بڑا ہی پرشکوہ آغازِ کلام ہے. جانتے ہو کون تم سے مخاطب ہے؟ وہ جو خالقِ ارض و سماء ہے‘ جس کی تسبیح و تحمید میں اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ لگا ہوا ہے. وہ العزیز ہے‘ زبردست ہے‘ اور الحکیمہے‘ کمالِ حکمت والا ہے.
اگلی آیت میں زجر اور ڈانٹ کا انداز ہے‘ مسلمانوں کو جھنجوڑا جا رہا ہے: یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾
’’اے اہلِ ایمان! کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں؟‘‘
تمہارے قول اور فعل کا یہ تضاد اللہ کے نزدیک انتہائی ناپسندیدہ ہے. اگلے الفاظ بہت سخت ہیں:
کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾
’’اللہ کے نزدیک یہ بات انتہائی بیزار کن ہے کہ تم کہو وہ کچھ جو کرتے نہیں ہو.‘‘
’’مَقْتٌ‘‘ عربی زبان میں غیظ اور غصے سے بھی آگے کی کیفیت کے لیے آتا ہے. اگر کوئی شخص کسی وقت آپ کی توقعات پر پورا نہ اترے تو آپ کو غصہ آتا ہے‘ لیکن ایک مرحلہ وہ آتا ہے کہ توقع بالکل ختم ہو جاتی ہے اور ایک بیزاری کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے. ’’مَقْت‘‘ کا لفظ درحقیقت اسی کیفیت کا غماز ہے. (۱) یہ گویا انتہائی ملامت کا انداز ہے کہ تمہاری یہ لن ترانیاں ‘ تمہارے محبت خداوندی اور عشق رسولؐ کے یہ دعوے تمہارے عمل سے مطابقت نہیں رکھتے. دعوے اتنے بلند آہنگ ہوں اور عمل اس معیارپر پورا نہ اتر رہا ہو‘ اللہ کے ساتھ وفاداریاں اور رسولؐ کی فرمانبرداری نہ ہو رہی ہو‘ اللہ اور رسولؐ اور ان کے دین کے لیے حمیت اور غیرت موجود نہ ہو‘ دین حق کو پامال دیکھو اور اپنے دھندوں میں لگے رہو‘ اسے مغلوب پاؤ اور پھر بھی دنیا کمانے میں مصروف و مشغول رہو‘ یہ قول و فعل کا وہ تضاد ہے جو اللہ کے نزدیک انتہائی قابل مذمت اور بیزار کن ہے. کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾ ایمان لائے ہو تو اس کے تقاضوں کو پورا کرنا ہو گا‘ خدا کو مانا ہے تو اس کے دین کے لیے جان اور مال کھپانے ہوں گے‘ محمد رسول اللہﷺ سے محبت ہے تو آپؐ کے مشن کی تکمیل کے لیے اپنی جانیں اور اپنے مال صرف کرنے ہوں گے. یا چناں کن یا چنیں! یا اس دعوے سے دستبردار ہو جاؤ‘ یا دعویٰ کرتے ہو تو اس کو عملا ً پورا کرو! اقبال نے غالباً (۱) عرب میں ایک مکروہ رواج یہ تھا کہ باپ کے مرنے کے بعد اُس کے بیٹے اپنی سوتیلی ماں سے نکاح کر لیتے تھے. تاہم ایسے نکاح کو اس معاشرے میں انتہائی ناپسندیدہ خیال کیا جاتا تھا اور اس کے لیے ’’نکاح ِمقت‘‘ کی اصطلاح مستعمل تھی. اسی لیے کہا تھا : ؎
چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را
اور : ؎
یہ شہادت گہ اُلفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا