اس آیت کا حوالہ ہمارے منتخب نصاب کے بالکل آغاز میں آیۂ بر کے ضمن میں آیا تھا کہ ہر نظامِ فکر کے نظریۂ اخلاق میں کسی نہ کسی خیر اعلیٰ (summum bonum) یابالفاظِ دیگر کسی highest virtue کا تصور موجود ہوتا ہے کہ سب سے اعلیٰ قدر کون سی ہے‘ نیکی کی بلند ترین منزل کون سی ہے. نوٹ کیجیے کہ آیۂ بر (البقرۃ:۱۷۷)کے اختتام پر جو مضمون آیا تھا اسی کا اعادہ سورۃ الصف کی اس آیت میں ہوا ہے. وہاں نیکی کی بحث کا اختتام ان الفاظ پر ہوا تھا: وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ ’’اور صبر کرنے والے(ڈٹ جانے والے‘ برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کرنے والے) فقر و فاقہ میں‘ تکلیف و اذیت میں اور لڑائی کے وقت (میدانِ جنگ میں)‘‘گویا اسلام کے نظامِ فکر اور س کے نظریۂ اخلاق میں بلند ترین نیکی یا خیراعلیٰ (summum bonum) کا جو تصور ہے وہ اللہ کی راہ میں اپنی جان دے دیناہے.
بہرحال یہ پہلی چار آیات تمہید بن رہی ہیں اس مطالبۂ جہاد و قتال کی جو آگے آ رہا ہے . اگلی آیات میں بعثت ِنبوی (علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) کے مقصد اور مشن کی تکمیل کے لیے مسلمانوں کو عمل کی دعوت دی جا تی ہے‘ لہذا آغاز میں تمہید کے طور پر یہ انداز اختیار کیا گیا ہے کہ جان لو کہ صرف زبانی اقرارِ ایمان تمہیں اللہ کے ہاں اُن وعدوں کا مستحق نہیں بنائے گا جو اُس نے اپنے مؤمن بندوں سے کیے ہیں‘ بلکہ قولی اقرار کے ساتھ ساتھ عمل کی گواہی بھی ضروری ہے‘ اور اس عمل کی چوٹی ہے قتال فی سبیل اللہ ‘ جو بندۂ مؤمن کی عملی جدوجہد کا نقطہ عروج ہے. نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے : مَنْ مَاتَ وَلَمْ یَغْزُ وَلَمْ یُحَدِّثْ بِہٖ نَفْسَہٗ مَاتَ عَلٰی شُعْبَۃٍ مِنْ نِفَاق (۱) ’’ جس شخص کی موت اس حال میں واقع ہوئی کہ اس نے نہ تو کسی غزوے میں شرکت کی اور نہ ہی اس کے دل میں شہادت کی تمنا پیدا ہوئی تو اس کی موت ایک نوع کے نفاق پر واقع ہوئی‘‘.یہ درحقیقت ایمان کا منطقی اور لازمی نتیجہ ہے. عین ممکن ہے کہ انسان کی ساری زندگی اللہ کی راہ میں مجاہدے اور جدوجہد میں گزرے‘ لیکن قتال کا مرحلہ نہ آئے. تاہم ایک بندۂ مؤمن کے سینے کو اِس آرزو سے آباد رہنا چاہیے کہ کاش کہ وہ وقت آئے کہ اپنی جان کا ہدیہ اللہ کے حضور میں پیش کرکے وہ سرخرو ہو جائے‘ سبکدوش ہو جائے. سورۃ الاحزاب میں اہل ایمان کی شان میں یہ الفاظ آئے ہیں : فَمِنۡہُمۡ مَّنۡ قَضٰی نَحۡبَہٗ وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ یَّنۡتَظِرُ ۫ۖ (آیت ۲۳) کہ ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بہت سے وہ ہیں جو اپنی نذر پیش کر چکے‘ راہِ حق میں گردنیں کٹوا کر سبکدوش ہو چکے اور باقی منتظر ہیں کہ کب ہماری باری آئے اور ہم بھی اس امتحان میں سرخرو ہو جائیں!