فرمایا:
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ الۡمَلِکِ الۡقُدُّوۡسِ الۡعَزِیۡزِ الۡحَکِیۡمِ ﴿۱﴾
’’تسبیح کرتی ہے اللہ کی ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ شے جو زمین میں ہے ‘ (اس اللہ کی) جو الملک(یعنی بادشاہ) ہے‘ القدوس (یعنی پاک) ہے‘ العزیز (یعنی زبردست) ہے‘ الحکیم (یعنی کمال حکمت والا )ہے‘‘.
یہ پہلی آیت گویا اس سورۂ مبارکہ کے لیے ایک نہایت پر شکوہ اور پُرجلال تمہید اور آغازِ کلام ہے. تسبیح باری تعالیٰ کامفہوم اس سے پہلے سورۃ التغابن کے درس کے ضمن میں عرض کیا جا چکا ہے. یہاں یہ نوٹ فرما لیں کہ سورۃ الصف میں اس کا ذکر صیغہ ماضی میں تھا: سَبَّحَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ جبکہ یہاں فعل مضارع آیا ہے: یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ غور کریں تو معلوم ہو گا کہ اس طرزِ بیان کو اختیار کر کے تسبیح باری تعالیٰ کے ضمن میں قرآن حکیم نے گویا زمان و مکان کا احاطہ کر لیا ہے. اللہ کی تسبیح اس کائنات میں ہر آن اور ہر لحظہ ہو رہی ہے اور کائنات کے ہر گوشے میں یہ عمل جاری ہے. مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ کے الفاظ پر غور کیجیے. یہ دراصل کل سلسلۂ کون و مکان‘ کل کائنات کے احاطے کے لیے قرآن حکیم میں مستعمل ہیں. اسی طرح فعل ماضی اور فعل مضارع کو جمع کر لیجیے تو کل زمان کا احاطہ ہو جاتا ہے. اس لیے کہ فعل مضارع عربی زبان میں حال اور مستقبل دونوں کو محیط ہے. چنانچہ تسبیح کے لفظ کو ماضی اور مضارع میں لا کر قرآن حکیم نے گویا زمان کا احاطہ بھی کر لیا ہے.