اُمِّیّٖنَ جمع ہے اُمِّی کی یہ لفظ ’’اُم‘‘ سے بنا ہے. ’’اُم‘‘ عربی زبان میں ماں کے لیے مستعمل ہے. ’’اُمی‘‘ سے گویا ایک ایسی کیفیت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ جیسے کوئی شخص بطن مادر سے برآمد ہوا ہو اور وہ اسی طرح کی کیفیت میں برقرار رہے. تو اگرچہ اس اعتبار سے ایک سے زائد مفہوم لیے جا سکتے ہیں‘ لیکن اس لفظ کا استعمال خاص طو رپر ان لوگوں کے لیے ہے کہ جن کے ہاں رواجی تعلیم یعنی لکھنے پڑھنے کا رواج نہ ہو. قرآن مجید نے اصطلاحاً یہ لفظ استعمال کیا ہے بنی اسماعیل کے لیے‘ اس لیے کہ اوّلاً ان میں پڑھنے لکھنے کا رواج ہی بہت کم تھا اور ثانیاً یہ کہ بنی اسماعیل کے لیے یہ لفظ لایا جاتا ہے بنی اسرائیل کے مقابلے میں‘ اس لیے کہ وہ اہل کتاب تھے ‘ ان کے ہاں لکھنے پڑھنے کا باقاعدہ رواج تھا. ان کے ہاں شریعت تھی‘ قانون تھا‘ عدالتیں تھیں‘ فقہاء تھے‘ مفتی تھے‘ لہذا بنی اسرائیل کے پس منظر میں یہ بنی اسماعیل اُمی اور اَن پڑھ تھے‘ ان کے پاس کوئی قانون‘کوئی ضابطہ‘ کوئی کتاب نہیں تھی‘ یہاں تک کہ لکھنے پڑھنے کا رواج نہیں تھا.
یہاں نوٹ کر لیجیے کہ نبی اکرمﷺ کی بعثت اوّلین ’’اُمِّیّٖنَ‘‘ میں تھی. آپ کے مخاطب اوّلین یہی اُمی تھے‘ اصلاً آپ کی بعثت انہی میں ہوئی . ’’ مِنۡہُمۡ ‘‘ کا لفظ اس حقیقت کی جانب رہنمائی دے رہا ہے. بلکہ اس کے حوالے سے مزید اشارہ کر دیا گیا اس بات کی طرف کہ کسی نبی اور رسول کے لیے اس قوم میں سے ہونا جس کی جانب وہ نبی یا رسول بنا کر بھیجے گئے‘ درحقیقت اس کے فرائض رسالت اور منصبِ نبوت کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں ممدو معاون ہوتا ہے. نبی اس قوم کا جانا پہچانا فرد ہوتا ہے جس کی سیرت و کردار سے وہ واقف ہیں‘ جو انہی کی زبان بولتا ہوا آتا ہے‘ اجنبیت کا کوئی پردہ اس کے اور قوم کے درمیان حائل نہیں ہوتا. یہی دلیل قرآن استعمال کرتا ہے اس اعتراض کے جواب میں کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے کسی فرشتے کو نبی بنا کر کیوں نہیں بھیجا جاتا: قُلۡ لَّوۡ کَانَ فِی الۡاَرۡضِ مَلٰٓئِکَۃٌ یَّمۡشُوۡنَ مُطۡمَئِنِّیۡنَ لَنَزَّلۡنَا عَلَیۡہِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَلَکًا رَّسُوۡلًا ﴿۹۵﴾ کہ اگر زمین میں فرشتے آباد ہوتے تو ہم لازماً کسی فرشتے ہی کو پیغامبر بنا کر بھیجتے‘ جب یہاں انسان آباد ہیں تو ہم نے انسانوں ہی میں سے انبیاء کو مبعوث فرمایا جن کے احساسات وہی ہوں جو دوسرے انسانوں کے ہیں‘ جن کے مسائل وہی ہوں جن سے دوسرے انسان دوچار ہوتے ہیں‘ پیٹ انہیں بھی لگا ہوا ہو‘ جسم و جان کے تقاضے ان کے ساتھ بھی ہوں‘ تاکہ وہ اپنے جیسے انسانوں پر تبلیغ کریں تو اتمامِ حجت کر سکیں‘ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ جس بات کی تم تبلیغ کر رہے ہو یا جو عملی نمونہ تم ہمارے سامنے پیش کر رہے ہو انسانوں کے لیے قابلِ عمل نہیں ہے!
اب آیئے اس آیۂ مبارکہ کے آخری ٹکڑے کی جانب : وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ ’’اور اگرچہ وہ پہلے کھلی گمراہی میں تھے‘‘. بنو اسماعیل کی گمراہی کی تفصیل یہاں بیان کرنے کی حاجت نہیں ہے. ان کے اوہام‘ ان کے مشرکانہ عقائد‘ ان کی اخلاقی زندگی کا نقشہ معلوم و معروف ہے. ’’ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ‘‘ کے مصداق وہ تہہ در تہہ گمراہیوں میں دھنسے ہوئے تھے.فکر کی‘ عقیدے کی‘ عمل کی‘ اخلاق کی‘ غرضیکہ ہر اعتبار سے وہ کجی اور گمراہی کا شکار تھے. پھر یہ کہ ان کے معاشرے میں کوئی نظام تھا نہ تنظیم‘ ہر ایک اپنی جگہ فرعون بے ساماں ہے‘ کوئی کسی کی بات سننے والا نہیں.وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾ میں گویا اس پوری صورت حال کا ایک نقشہ کھینچ دیا گیا.