خطبہ جمعہ دراصل عوامی سطح پر تذکیر بالقرآن ہی کی ایک ہمہ گیر شکل ہے. یہ گویا تعلیم بالغاں کا ایک عظیم نظام ہے جو اُمت میں رائج کیا گیا کہ کوئی نائب رسول منبر رسولؐ پر کھڑا ہو کر اور قرآن حکیم کی آیات کے ذریعے تذکیر و نصیحت کا وہی فریضہ سرانجام دے جو درحقیقت انقلاب محمدﷺ کی جڑ اور بنیاد ہی نہیں‘ مرکز و محور بھی ہے. یعنی یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ اسی نبوی عمل کو دوام بخشا گیا اور اسے اُمت کے اندر ایک مستقل عمل کی حیثیت سے جاری کر دیا گیا نظامِ جمعہ کی صورت میں‘ کہ لوگ خطبہ سننے کے لیے پورے اہتمام سے نہا دھو کر آئیں‘ اعصاب چاق و چوبند ہوں‘ ماحول معطر ہو. غور کیجیے‘ یہ ساری ہدایات کیوں دی گئیں! نبی اکرمﷺ نے اس معاملے میں یہاں تک فرمایا کہ کیا تمہارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ تم اپنے ان کپڑوں کو جو محنت مزدوری کے وقت پہنتے ہو‘ علیحدہ رکھو اور جمعہ کے لیے ایک صاف ستھرا جوڑا علیحدہ تیار رکھو؟ تاکہ جب مسلمان جمع ہوں تو وہاں کا ماحول پسینے کی بدبو سے منغض نہ ہو بلکہ پاک صاف اور معطر ماحول ہو کہ مسلمان خطبہ جمعہ پوری دلجمعی اور یکسوئی کے ساتھ سن سکیں اور کوئی نائب رسول جب عمل نبویؐ کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے آیات قرآنی کے ذریعے سے وعظ و نصیحت کرے تو ان باتوں کو سننے اور سمجھنے کی راہ میں کوئی چیز رکاوٹ نہ بن سکے.