یہ تو ہوئی حفاظتی تدبیر جس کو ایک لفظ میں اگر بیان کریں تو وہ ہے ’’دوامِ ذکر الٰہی!‘‘ لیکن اگر کہیں اس مرض کی چھوت لگ گئی ہو تو اس بارے میں جو تجزیہ ہم کر چکے ہیں اس کی رو سے اس کا اصل سبب ہے مال و دولت دنیا کی محبت! یہی وہ محبتیں ہیں جو انسان کو نفاق کے راستے پر ڈالتی ہیں. اللہ کی راہ سے انسان اگر رکتا ہے تو اصل میں انہی محبتوں کے باعث. لہذا اب اس کا علاج اسی طور پر ہو گا کہ مال کی محبت کو دل سے کھرچنے کی کوشش کی جائے . انسان چاہتا ہے کہ اس مال کو جو اسے بہت محبوب ہے‘ روک روک کر اور سینت سینت کر رکھے. سورۃ المعارج میں ہم پڑھ چکے ہیں: اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿ۙ۱۹﴾اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا ﴿ۙ۲۰﴾وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا ﴿ۙ۲۱﴾
کہ انسان بہت ہی تھڑدلا پیدا کیا گیا ہے‘جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو واویلا کرتا ہے اور جب خیر پہنچتا ہے‘ مال میسر آتا ہے تو اسے روک روک کر رکھتا ہے. یہ انسان کی طبیعت ہے. اسی سے اس کے دل کی کلی کھلتی ہے. لہذا فرمایا: وَ اَنۡفِقُوۡا مِنۡ مَّا رَزَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ یَّاۡتِیَ اَحَدَکُمُ الۡمَوۡتُ ’’خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا‘ اس سے پہلے پہلے کہ تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ پہنچے‘‘. اس مال کو صرف کرو‘ اس کو خرچ کرو‘ اللہ کی راہ میں لگا دو. اس طرح قلب کی صفائی ہو گی‘ مال کی محبت کا زنگ دھلے گا‘ اسی سے تزکیہ ہو گا. سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات میں بھی یہ مضمون آ چکا ہے: وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ تزکیۂ عمل‘ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے لیے درحقیقت سب سے مؤثر تدبیر یہی ہے کہ اس مال کو اللہ کی راہ میں لگاؤ اور خرچ کرو. اسی کا نام ہے انفاق فی سبیل اللہ.
یہاں ایک بات اور نوٹ کر لیجیے کہ انفاق کے بارے میں عام تصور تو یہی ہے کہ اس سے مراد ہے انفاقِ مال‘ اور قرآن مجید میں بھی اکثر و بیشتر مال کے صرف کرنے کے لیے ہی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے. لیکن انفاق کا لفظ‘ جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ عام ہے اور اس کے مفہوم میں خاصی وسعت پائی جاتی ہے. چنانچہ نَفَقَتِ الدَّرَاھِمُ کی طرح نَفَقَ الْفَرَسُ بھی مستعمل ہے. گویا کسی کام میں اپنی جان‘ اپنی صلاحیتوں اور قوتوں کو کھپانا اور اوقات کا صرف کرنا‘ انفاق کا لفظ ان سب کو محیط ہے. اس لیے کہ رزق بھی ایک نہایت وسیع اصطلاح ہے. انسان کو جو کچھ دیا گیا ہے وہ اس کا رزق ہے. اس کا نصیب‘ اس کی ذہانت‘ اس کی صلاحیتیں‘ یہ سب رزق میں شامل ہیں. کوئی بھاگ دوڑ زیادہ کر سکتا ہے‘ کوئی منصوبہ بندی بہتر کر سکتا ہے. آج کے دور میں علمِ معاشیات نے جو وسعت اختیار کی ہے‘ اس کے اعتبار سے اب یہ بات معروف ہے کہ یہ سب چیزیں capital یعنی سرمایہ شمار ہوتی ہیں. انہی صلاحیتوں سے سرمایہ کمایا جاتا ہے.
یہ interconvertible ہیں.لہذا انفاقِ مال میں بذلِ نفس یعنی انفاقِ نفس بھی شامل ہے. جو کچھ انسان کو دیا گیا ہے اس میں سے ایک قابل ذکر حصہ اللہ کی راہ میں لگائے اور کھپائے. یہ گویا کہ علاج بالضِّد ہے کہ جس چیز سے محبت ہے اسی کو خرچ کرو اور اللہ کے راستے میں لگاؤ.
یہی بات چوتھے پارے کے آغاز میں بیان ہوئی ہے : لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ کہ تم نیکی اور وفاداری کا مقام حاصل کر ہی نہیں سکتے جب تک کہ خرچ نہ کرو وہ چیز جو تمہیں محبوب ہے‘ جسے تم پسند کرتے ہو. یہی بات آیۃ البِر میں ایک مختلف اسلوب میں بیان ہوئی ہے : وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ کہ انسان مال کو خرچ کرے اس کی محبت کے علی الرغم.