یہاں دیکھئے کہ اس پُر فریب مصالحانہ روش کی کس شدت کے ساتھ مذمت کی گئی ہے اور اس دامِ ہمرنگ زمین میں کسی داعی ٔ حق کے گرفتار ہو جانے کے امکان یا اندیشے کا کس شدّ و مدّ اور کتنے اہتمام کے ساتھ سدِّ باب کیا گیا ہے. اس ضمن میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سردارانِ قریش کی جانب سے اس مرحلے پر ایک خاص بات یہ پیش کی گئی کہ اے محمد (ﷺ )! ہمیں تم سے کوئی ذاتی پرخاش نہیں ہے‘ تم سے ہمارا کوئی جھگڑا یا ذاتی نوعیت کی کوئی لڑائی نہیں ہے‘ لیکن یہ قرآن جو تم پیش کر رہے ہو‘ ہمارے لئے ناقابلِ قبول ہے. ٹھیک ہے کچھ باتیں اپنی منوا لو کچھ ہماری مانو‘ کچھ لے دے کر معاملہ کرو‘ یہ قرآن تو بہت rigid (بے لچک) ہے ‘لہذا یا تو کوئی اور قرآن پیش کرو جو اِس سے مختلف ہو یا اسی میں کوئی تغیر و تبدل کر کے کچھ لچک پیدا کرو‘ تبھی ہمارے اور تمہارے مابین کوئی مفاہمت اور مصالحت ہو سکتی ہے.
اس پوری صورت ِ حال کو ذہن میں رکھئے‘ بظاہر اسلام کے فروغ کا کہیں کوئی امکان نظر نہیں آ رہا‘ ہر چہار طرف سے راستے بند نظر آتے ہیں‘ یہ درست ہے کہ نبوت کے گیارہویں سال مدینہ کی جانب سے ایک چھوٹی سی کھڑکی کھلتی ہے‘ چھ افراد حضور کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں‘ اگلے سال اس کھڑکی کا حجم کچھ بڑھ جاتا ہے ‘ ایمان لانے والوں کی تعداد چھ سے بڑھ کر بارہ ہو جاتی ہے لیکن باقی تو ہر چہار طرف گھپ اندھیرا ہے ‘ کہیں کسی جانب سے روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی‘ کچھ پتہ نہیں چلتا کہ راستہ کدھر سے نکلے گا.ان حالات میں امکانی طور پر بربنائے طبعِ بشری یہ خیال دل میں آ سکتا ہے کہ چلو حکمت ِ عملی کا تقاضا سمجھ کر ہی کچھ لے دے کر معاملہ کر لیا جائے تا کہ بات کچھ تو آگے بڑھے‘ اگر ہمارا موقف اسی طریقے سے بالکل دو ٹوک اور بے لچک (rigid) رہا پھر تو معاملہ بالکل ٹھپ ہو کر رہ جائے گا‘ راستہ کھلنے کے تمام امکانات مسدود ہو کر رہ جائیں گے. اس امکان کو سامنے رکھئے اور دیکھئے قرآن مجید اس سلسلے میں کیا ہدایات دیتا ہے. سورۂ یونس سے سورۂ مؤمنون تک مَکّی سورتوں کا جو طویل سلسلہ ہے ان میں سے اکثر و بیشتر سورتیں اسی دور میں نازل ہوئی ہیں. سورۂ یونس میں فرمایا گیا: وَ اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِمۡ اٰیَاتُنَا بَیِّنٰتٍ ۙ قَالَ الَّذِیۡنَ لَا یَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا ائۡتِ بِقُرۡاٰنٍ غَیۡرِ ہٰذَاۤ اَوۡ بَدِّلۡہُ ؕ
کہ جب ان مشرکین کو ہماری روشن آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ کہ جو ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے ‘ جنہیں یہ گمان ہی نہیں ہے کہ ہمارے حضور میں حاضر ی ہو گی‘ کہتے ہیں کہ اے محمد (ﷺ )! اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن پیش کرو یا اس میں کچھ تبدیلی کر لو.