یہ معیت تائید و نصرت کے معنی میں ہے. اس لیے کہ اللہ کی ایک معیت تو وہ ہے جو ہر شے کو حاصل ہے‘ کیونکہ اللہ ہر جگہ ہر آن موجود ہے. وَ ہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ ؕ ’’ جہاں کہیں بھی تم ہوتے ہو اللہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے‘‘. ان الفاظ میں اللہ کی معیت ِ عمومی کا ذکر ہے‘ لیکن اہلِ ایمان کو اللہ کی جو معیت حاصل ہوتی ہے وہ ہے اللہ کی تائید و نصرت‘ اس کی طرف سے توفیق و تیسیر ‘ اس کی طرف سے ہمت کا بندھے رہنا اور بشارتوں کا ملتے رہنا. یہاں اسی معنی میں فرمایا گیا :
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾
کہ یاد رکھو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ! اس کی یہ معیت ان لوگوں کو حاصل نہیں ہے جن میں مصائب جھیلنے اور مشکلات برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں‘ جو تھڑدلے ‘ بزدل اور کم ہمت لو گ ہیں‘ جن کا نقشہ سورۃ النساء میں بایں الفاظ کھینچا گیا ہے:
مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ (آیت ۱۴۳)
جن کی کیفیت یہ ہے کہ دنیا کو بھی چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا ‘ یہاں کی لذات سے کنارہ کشی بھی کسی درجے میں گوارا نہیں ہے‘ مال و اولاد اور تعیشات کی محبتیں بھی دل کے اندر گہری موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ دین کی طرف بھی رغبت ہے. ایسے لوگ کسی طرح کا کوئی کام نہیں کر سکتے. تائیدِ ربّانی اور توفیق ِ الٰہی تو انہی لوگوں کے شامل حال ہوتی ہے جو یکسو ہو کر آئیں‘ جن کے بارے میں پہلے عرض کیا گیا کہ جو ’’ ہر چہ باداباد‘ ما کشتی در آب انداختیم‘‘ کے سے جذبے کے ساتھ آئیں. ایسے ہی لوگوں کو اللہ کی معیت اور توفیق و تائید حاصل ہوتی ہے. سورۃ العنکبوت کی آخری آیت بھی ہم پڑھ آئے ہیں:
وَالَّذِیۡنَ جَاہَدُوۡا فِیۡنَا لَنَہۡدِیَنَّہُمۡ سُبُلَنَا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿٪۶۹﴾
’’ اور جن لوگوں نے ہماری خاطر جدوجہد کی ہم لازماً انہیں اپنی راہیں سجھا دیں گے ‘اور یقینا اللہ تو احسان کی روش اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘.
اللہ کی تائید اور توفیق ہر دم اُن کے شامل حال رہتی ہے.
اسی معیت ِ خداوندی کا ایک ظہور ہمارے سامنے حضرت موسٰی علیہ السلام کی زندگی میں آتا ہے. حضرت موسی ٰ ؑجب بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے اور پیچھے سے فرعون نے اپنے لشکر کے ساتھ ان کا تعاقب شروع کیا تو ایک مرحلہ وہ آیا کہ بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا تھا‘ سامنے سمندر تھا اور پیچھے نظر آ رہا تھا کہ فرعون اور اس کا لشکر چلا آ رہا ہے‘ گرد اڑاتا ہوا قریب سے قریب تر پہنچ رہا ہے. اُس وقت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں نے عالمِ بے چارگی میں کہا : اِنَّا لَمُدۡرَکُوۡنَ ’’ (اے موسیٰ! )ہم تو پکڑے گئے (اب تو بچاؤ کی کوئی صورت نہیں ہے)‘‘. اُس وقت حضرت موسیٰ نے کمالِ دلجمعی کے ساتھ جواب دیا : کَلَّا ۚ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیۡ سَیَہۡدِیۡنِ ﴿۶۲﴾ ’’ نہیں نہیں ! میرے ساتھ میرا ربّ ہے ‘ وہ یقینا مجھے راستہ دے گا‘‘. چاہے بظاہر احوال کوئی راستہ نہیں ‘ مادی اسباب و وسائل راستہ روکے کھڑے ہیں‘ لیکن میرا توکل و انحصار اور میرا تکیہ اور دارومدار اُس ذات پر ہے جو مسبب الاسباب ہے‘ جو اسباب سے ماوراء ہے‘ وہ یقینا راستہ نکال دے گا. یہی بات غار ثور میں حضور:ﷺ نے فرمائی تھی. جب بربنائے طبع بشری حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی کچھ گھبرا گئے تھے کہ حضور! یہ لوگ غار کے دہانے تک پہنچ گئے ہیں اور اگر ان میں سے کسی نے غیر ارادی طور پر بھی اپنے قدموں کی طرف نگاہ ڈال لی تو ہم پکڑے جائیں گے. اس وقت حضور ﷺ نے فرمایا: لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا ۚ ’’نہیں نہیں ‘گھبراؤ نہیں‘ اللہ ہمارے ساتھ ہے‘‘. تو یہ ہے مفہوم اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ کا. یعنی یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے. یہ معیت ِ الٰہی کا مقام ہے‘ یہ درحقیقت بندۂ مؤمن کا آخری سہارا ہے ان حالات میں بھی کہ جہاں کوئی حالت اُمید افزا نظر نہ آ رہی ہو‘ جہاں کہیں کوئی راستہ نکلتا ہوا دکھائی نہ دے رہا ہو اور امید کی کوئی کرن کسی جانب سے نظر نہ آتی ہو. معیتِ ِخداوندی کا یہ یقین اور اللہ کی تائید و نصرت پر یہ بھروسہ ایک ایسی شے ہے جو بندۂ مؤمن کو اس طرح کے انتہائی مایوس کن حالات میں بھی ثابت قدم رکھتی ہے اور وہ اپنی منزلِ مقصود کی طرف پیش قدمی جاری رکھتا ہے‘ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے جو کچھ اس کے بس میں ہوتا ہے وہ کیے چلے جاتا ہے. لہذا اس مرحلے پر اُمت کو اس کے فرضِ منصبی سے آگاہ کرنے اور وہ کٹھن ذمہ داری جو اُس کے کاندھے پر آرہی ہے اس سے مطلع فرمانے کے بعد جو پہلی ہدایت دی گئی وہ یہی ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۳﴾
اس کے بعد اب فرمایا جا رہا ہے:
وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾
’’اور مت کہو ان کو جو قتل ہو جائیں اللہ کی راہ میں کہ وہ مردہ ہیں‘ بلکہ وہ تو زندہ ہیں‘ لیکن تمہیں اس کا شعور حاصل نہیں ہے‘‘.
یہ مضمون سورۂ آل عمران میں بڑے مؤکد انداز میں پھر دہرایا گیا ہے :
وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ ﴿۱۶۹﴾ۙفَرِحِیۡنَ بِمَاۤ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ۙ وَ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِالَّذِیۡنَ لَمۡ یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ مِّنۡ خَلۡفِہِمۡ ۙ اَلَّا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ ﴿۱۷۰﴾ۘیَسۡتَبۡشِرُوۡنَ بِنِعۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۷۱﴾ۚ٪ۛ
’’اور ہرگز گمان نہ کرنا ان کے بارے میں جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں کہ وہ مُردہ ہیں‘ نہیں وہ زندہ ہیں‘ اپنے ربّ کے پاس رزق پا رہے ہیں‘ فرحاں و شاداں ہیں اس (انعام و اکرام) سے کہ جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں عطا فرمایا اور خوش خبریاں حاصل کر رہے ہیں ان لوگوں کے بارے میں کہ جو ابھی ان کے ساتھ شامل نہیں ہوئے ان کے پیچھے سے‘ کہ نہ ان پر کوئی ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے. خوشخبری حاصل کر رہے ہوں گے اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر‘ اور اللہ تعالیٰ مؤمنین کا اجر ضائع نہیں کرتا.‘‘