یہاں لفظ ’’صَلَوٰتٌ ‘‘ بھی خاص طور پر توجہ کے لائق ہے. یہ صلوٰۃ کی جمع ہے اور اس سے قبل یہ لفظ ہمارے اس منتخب نصاب میں سورۃ المؤمنون کی ابتدائی آیات کے درس میں آ چکا ہے : وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾ … ’’ صلوٰۃ‘‘ جیسا کہ عرض کیا گیا تھا‘ توجہ کا نام ہے. لغت میں اس کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے : ’’ اِقْدَامٌ اِلَی الشَّیْیءِ‘‘ یعنی کسی کی جانب متوجہ ہونا‘ کسی کی طرف رخ کر لینا. اسی لیے نماز جس کی اصل روح ہے اللہ کی جانب متوجہ ہو جانا‘ اس کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے :
اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ ﴿ۚ۷۹﴾
صلوٰۃ درحقیقت ایک دو طرفہ عمل ہے جو اللہ اور بندے کے مابین ہے. بندہ جذبۂ عبودیت کے ساتھ اپنے ربّ کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور پروردگار شفقت و عنایت کے ساتھ بندے کی جانب متوجہ ہوتا ہے. ذہن میں رکھئے کہ قرآنِ مجید میں بہت سے مقامات پر عبد و معبود کے ربط و تعلق کو ایک دوہرے اور دو طرفہ تعلق کی شکل میں سامنے لایا گیا ہے. چنانچہ سورۃ البقرۃ ہی میں اس مقام سے متصلًا قبل کہ جو ہمارے زیر درس ہے‘ یہ آیت موجود ہے:
فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِیۡ وَ لَا تَکۡفُرُوۡنِ ﴿۱۵۲﴾٪
’’ پس تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر بجالاؤ اور میری ناشکری نہ کرو!‘‘
اس کی بڑی عمدہ وضاحت ایک حدیث قدسی سے ہوتی ہے جس کی رُو سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’اگر میرا بندہ مجھے اپنے جی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں ‘اور اگر میرا بندہ میرا ذکر کسی محفل میں کرتا ہے تو میں اس سے بہت اعلیٰ محفل میں (یعنی ملائکہ مقربین کی محفل میں)اس کا ذکر کرتا ہوں‘‘. اسی طرح کا معاملہ لفظ توبہ کا بھی ہے. بندہ اللہ کی جناب میں پشیمانی اور احساسِ ندامت کے ساتھ رجوع کرتا ہے‘ گناہ کے راستے سے واپس پھرتا ہے اور اللہ بھی بندے کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اپنی شفقتوں اور عنایتوں کے ساتھ. گویا اس کی وہ نگاہِ کرم جو بندے کی جانب سے ہٹ گئی تھی وہ اب پھر اس کی طرف ملتفت ہو جاتی ہے. اسی طرح ’’ نصرت‘‘ کا معاملہ بھی دو طرفہ ہے: اِنۡ تَنۡصُرُوا اللّٰہَ یَنۡصُرۡکُمۡ ’’ اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا‘‘. یہ صریحاً ایک دو طرفہ معاملہ ہے. اسی طرح شکر کے بھی دو رُخ ہیں. اللہ بھی شکور ہے اور بندے کے لیے بھی شکور کا لفظ استعمال ہوتا ہے. بندے کا شکور ہونا اس معنی میں ہے کہ وہ اللہ کا حق مانے‘ اس کا احسان مانے ‘ اس کی نعمتوں کا حق ادا کرے اور اس کا شکر بجا لائے‘ جبکہ اللہ اس اعتبار سے شکور ہے کہ وہ کوششوں اور قربانیوں کی قدر افزائی فرمانے والا ہے‘ وہ بڑا قدردان ہے. تو ذہن میں رکھئے کہ کچھ اسی طرح کا معاملہ صلوٰۃ کا بھی ہے. بندہ اگر اللہ کی طرف متوجہ ہو گا تو اللہ بھی بندے کی طرف کمال شفقت کے ساتھ متوجہ ہو جائے گا. سورۃ الاحزاب میں نبی اکرمﷺ کی شان میں جو الفاظ وارد ہوئے وہ چونکہ بالعموم سیرت کی ہر تقریر کا عنوان بنتے ہیں‘ لہذا اکثر لوگوں کو یاد ہیں :
اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿۵۶﴾
یہاں دیکھئے کہ ’’ صلوٰۃ ‘‘ کی نسبت اللہ اور فرشتوں کی طرف ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں‘ ان کی جانب سے آپؐ پر شفقتوں اور عنایتوں کا مسلسل نزول ہوتا رہتا ہے‘ لیکن نوٹ کیجئے کہ یہ الفاظ صرف نبی اکرمﷺ کے لیے نہیں آئے بلکہ سورۃ الاحزاب ہی میں بعینہٖ یہی الفاظ اہلِ ایمان کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں:
ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ وَ کَانَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ رَحِیۡمًا ﴿۴۳﴾
’’ وہی ہے اللہ جو (اے اہلِ ایمان!) تم پر عنایتیں بھیجتا رہتا ہے اور اس کے فرشتے بھی تم پر عنایتیں (درود) بھیجتے ہیں‘ تا کہ وہ تمہیں نکالے اندھیروں میں سے روشنی کی جانب ‘ اور وہ اہل ایمان کے حق میں بہت ہی رحیم ہے‘‘.
یہ ہے لفظ صلوٰۃ کا قرآن حکیم میں استعمال ! یہاں فرمایا : اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ اللہ کی عنایات اور شفقتوں کا نزول ان لوگوں پر ہوتا ہے جو مشکلات اور آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے والے ہیں‘ جنہوں نے دین کو محض موروثی عقائد اور چند رسومات کا مجموعہ سمجھ کر قبول نہیں کیا بلکہ شعوری طور پر حقائق کو سمجھا‘ فرائضِ دینی کا شعور حاصل کیا‘ دین کی دعوت پر لبیک کہا‘ جنہوں نے اس حقیقت کو جانا کہ دین کے لیے جان و مال کھپانا اور اس کے غلبہ و اقامت کے لیے قربانیوں کا دینا ہمارے ایمان کا عین تقاضا ہے‘ اور پھر اس راہ کے تمام امتحانوں اور آزمائشوں میں پورے اترے. یہ ہیں وہ لوگ جن پر اُن کے ربّ کی جانب سے عنایتیں ہیں‘ جن کے لیے شاباشیں ہیں‘ جن پر اللہ کی رحمتوں کا مسلسل نزول ہوتا رہے گا. اور فرمایا: وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ’’ اور یہی ہیں وہ لوگ جو راہ یاب ہونے والے ہیں‘‘ جو ہدایت یافتہ ہیں. نوٹ کیجئے کہ یہاں پھر اسلوبِ حصر ہے. اس اعتبار سے اس کا مفہوم یہ ہو گا کہ صرف یہی لوگ فی الواقع راہ ہدایت پر گامزن ہیں.
اس سے قبل سورۃ الفاتحہ کے درس کے ضمن میں عرض کیا جا چکا ہے کہ ہدایت کے مختلف مدارج ہیں. ایک انسان درجہ بدرجہ ہدایت کی منزلیں طے کرتا ہے. ایک منزل کے بعد اگلی منزل ہے اور ایک مرحلے کے بعد دوسرا مرحلہ ہے. گویا ہدایت ایک مسلسل عمل ہے.چنانچہ لفظ ہدایت کا اطلاق اپنے تکمیلی معنوں میں کسی کے منزلِ مراد تک پہنچ جانے کے معنی میں بھی ہوتا ہے. اس پہلو سے وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ کا مفہوم ہو گا: ’’ یہ ہیں وہ لوگ جو منزلِ مراد تک پہنچ جانے والے ہیں‘‘.
ان چند آیات میں اہلِ ایمان کو مدنی دَور کے بالکل آغاز میں جن مراحل سے سابقہ پیش آنے والا تھا ان کے بارے میں پیشگی طور پر متنبہ کر دیا گیااور ساتھ ہی مسلمانوں کو بحیثیت اُمت ِ مسلمہ شہادت علی الناس کا جو فرضِ منصبی سونپا گیا تھا اس کے ضمن میں ہمیشہ ہمیش کے لیے یہ رہنمائی عطا کر دی گئی کہ جو مرتبہ و مقام تمہیں ملا ہے اس کے تقاضے کے طور پر یہ بات جان لو کہ اس راہ میں مصائب و مشکلات آئیں گی‘ آزمائشوں میں سے تمہیں گزرنا ہو گا. اس لیے کہ ؏
جن کے رتبے ہیں سوا اُن کی سوا مشکل ہے!