صلح حدیبیہ کے بعد کہ جسے قرآن مجید نے فتح مبین قرار دیا‘ واقعتا کامیابیوں نے مسلمانوں کے قدم چومنے شروع کیے اور اس فتح و نصرت کا اظہار دو پہلوؤں سے ہوا. ایک یہ کہ‘ جیسا کہ اس سے قبل ایک موقع پر اشارہ کیا جا چکا ہے‘ اندرونِ عرب دو سال تک یہ صلح قائم رہی اور نبی اکرمﷺ کو دعوت و تبلیغ کا بھرپورموقع میسر آیا. اس دوران بہت سے قبائل نے اسلام قبول کیا اور اسلام کا دائرۂ اثر عرب کے کونے کونے تک پہنچ گیا. اور دوسرے یہ کہ اسی عرصے میں آپؐ نے بیرونِ ملک ِعرب اپنی دعوتی سرگرمیوں ٭ (یہ بہت اہم نکتہ ہے اور ہمارے لیے اپنے دلوں کو جانچنے کے لیے ایک معیار ہے کہ محمد ٌرسول اللہﷺ کی کھیتی پر جس کا دل جلتا ہے وہ حقیقت ایمان سے بالکل بے بہرہ ہے.) کا آغاز فرمایا‘ آس پاس کے حکمرانوں کی طرف اپنے سفیر بھیجے اور نامہ ہائے مبارک کے ذریعے انہیں اسلام لانے کی دعوت دی.
قریش کی ایک غلطی سے یہ صلح ختم ہوئی. انہوں نے ایک قبیلے کے خلاف کہ جو مسلمانوں کا حلیف تھا‘ اپنے ایک حلیف کی مدد کی. اس طرح گویا خود انہوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کا ارتکاب کیا اور یوں صلح ٹوٹ گئی. لیکن اس کے فوراً بعد سردارانِ قریش کو یہ احساس ہو گیا کہ ان سے بہت بڑی حماقت سرزد ہوئی ہے . چنانچہ فوراً ہی ان کی جانب سے تجدید ِمصالحت کی کوششوں کا آغاز ہو گیا کہ کسی طرح صلح دوبارہ ہو جائے. ابوسفیان جو اُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے اور قریش کی سرداری کا منصب انہیں حاصل تھا ‘ صلح کی تجدید کے لیے خود چل کر مدینہ آئے. اس ضمن میں نہایت دلچسپ اور عجیب واقعات سیرت کی کتابوں میں ملتے ہیں. ابوسفیان مدینے آتے ہیں اور اپنی صاحبزادی حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا جو آنحضورﷺ کی زوجۂ محترمہ ہیں‘ کے پاس جاتے ہیں کہ وہ ان کے لیے اپنے شوہر (یعنی نبی اکرمﷺ ) سے سفارش کریں. وہاں یہ عجیب معاملہ پیش آتا ہے کہ گھر میں داخل ہو کر جب چارپائی پر بیٹھنے لگتے ہیں تو اُمّ المو ٔمنین حضرت اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ذرا رکیے ! باپ کو روک کر پہلے وہ بستر تہہ کرتی ہیں اور پھر فرماتی ہیں کہ اب بیٹھئے! قریش کا وہ مدبر ّسردار جس نے ایک دنیا دیکھ رکھی تھی اور جسے بڑے بڑے درباروں میں حاضر ہونے اور وہاں کے رکھ رکھاؤ اور آداب کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا تھا‘ فوراً پوچھتا ہے : ’’بیٹی! یہ بستر میرے لائق نہ تھا یا میں اس بستر کے لائق نہ تھا؟‘‘ اُمّ المؤمنین حضرت اُمّ حبیبہؓ فرماتی ہیں کہ اباجان! آپ مشرک ہیں‘ ناپاک اور نجس ہیں اور یہ بستر محمد ٌرسول اللہﷺ کا ہے‘ لہذا آپ اس پر نہیں بیٹھ سکتے …!
نبی اکرمﷺ کی فراست اور معاملہ فہمی کی ایک نہایت اعلیٰ مثال یہاں بھی سامنے آتی ہے کہ آپؐ نے تجدید ِ صلح کے لیے کی جانے والی ان کوششوں کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا اور مشرکین کے ساتھ صلح کی تجدید پر آمادگی ظاہر نہیں کی. اس لیے کہ نہ جنگ آپؐ کا اصل مقصود تھی نہ صلح. آپؐ کی سعی و جہد کا اصل ہدف اور مقصود تھا دین کا غلبہ… ! جب اس ہدف کے حصول اور دین کی مصلحت کے لیے صلح بہتر تھی تو آنحضورﷺ نے بظاہر احوال دب کر بھی صلح کر لی. (صلح حدیبیہ کی شرائط بالکل یک طرفہ محسوس ہوتی ہیں کہ ان سے بظاہر سارا فائدہ مشرکین کو پہنچ رہا تھا.) لیکن اب چونکہ صلح کو مزید جاری رکھنے اور صلح کی تجدید کرنے کے معنی یہ ہوتے کہ کفر کو بلاجواز ایک مہلت (lease of existence) دے دی جاتی ‘ لہذا آنحضورﷺ نے صلح کی تجدید نہیں فرمائی. آپؐصحیح طور پر اندازہ فرما چکے تھے او رجان چکے تھے کہ اب اِن کفارِ قریش اور مشرکین ِمکہ ّمیں کوئی قوتِ مدافعت موجود نہیں ہے. غلبہ و اقامت دین کی منزل اب بہت قریب ہے‘ آپؐ کی انقلابی جدوجہد اب کامیابی سے ہمکنار ہوا چاہتی ہے‘ لہذا آپؐ نے صلح کی تجدید سے انکار کیا.