سب جانتے ہیں کہ نبی اکرم اور رسول اعظم محمد عربیﷺ کا اصل اور عظیم ترین معجزہ قرآن حکیم ہے چنانچہ قرآن کا ہر لفظ‘ ہر آیت اور ہر سورت معجز نماہے اوراس اعتبار سے جملہ آیات و سور ہم مرتبہ اور ہم پلہ ہیں تاہم مختلف اعتبارات سے مختلف آیتوں اور سورتوں کو بقیہ آیات و سورپر فضیلت کا درجہ حاصل ہے‘ جیسے آیات میں سے آیت الکرسی‘ آیت البر اور آیت استخلاف وغیرہ‘ اور سورتوں میں سے بڑی سورتوں میں ’’الزّہراوَین‘‘ یعنی سورۃ البقرۃ اور سورۂ آل عمران اور چھوٹی سورتوں یعنی ’جوامع الکلم‘ میں سے ’’المُعَوّذَتَین‘‘ اور سورۃ الاخلاص اور سورۃ العصر وغیرہ وقِس علٰی ذٰلک! ان سطور کے عاجز و ناچیز راقم نے جب دعوت رجوع الی القرآن کا آغاز کیا تو اس کے لیے اوّلاً مطالعۂ قرآن حکیم کا ایک منتخب نصاب مرتب کیا جس سے مقصود یہ تھا کہ قرآن کے فلسفہ و حکمت اور اس کی دعوت و پیغام کا ایک اجمالی نقشہ اور دینی فرائض کا ایک جامع تصور سامنے آ جائے. چنانچہ اس کے نقطہ ٔ آغاز کے طور پر راقم نے سورۃ العصرکا انتخاب کیا جو بقول امام شافعی ؒ قرآن حکیم کی جامع ترین سورت ہے‘ یہاں تک کہ اس کی شان میں امام صاحب کے یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں کہ : ’’لولم ینزّل من القرآن سواھا لکفتِ النّاس!‘‘ لہذامنتخب نصاب کا پورا تانا بانا اسی سورۂ مبارکہ کی اساس پر وجود میں آیا. چنانچہ پہلے حصے میں اس کے علاوہ جامعیت کے اعتبار سے اسی کے لگ بھگ تین مقامات کو مزید شامل کیا گیا. پھر دوسرے حصے میں ایمان‘ تیسرے میں عمل صالح‘ چوتھے میںتواصی بالحق اور پانچویں میں تواصی بالصبر کے مباحث پر مشتمل آیات اور سورتیں شامل کی گئیں اور آخری اور چھٹا حصہ پھر صرف ایک ہی سورۃ یعنی سورۃ الحدید پر مشتمل قرار پایا جو میرے نزدیک کسی زوال پذیر اُمت ِمسلمہ سے خطاب کے ضمن میں قرآن کا نقطہ ٔ عروج یا ’’ذروۃ السنام‘‘ ہے. چنانچہ اب جبکہ مولانا حالیؔ مرحوم کے اس شعر کے مصداق کہ ؎ ’’پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے. اسلام کا گر کر نہ اُ بھرنا دیکھے!‘‘ زوال اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے‘ اور اُمت قعر مذلت میں گری ہوئی ہے ‘یہ سورۂ مبارکہ ہمارے اجتماعی امراض کے لیے اکسیر کادرجہ رکھتی ہے.
مجھے اس سورۂ مبارکہ سے پچھلی صدی کی پانچویں دہائی کے آغاز ہی سے شدیدقلبی اور ذہنی لگاؤ رہا ہے اور اس سورۂ مبارکہ کی عظمت کا جو نقش میرے قلب و ذہن پر کندہ ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن نہیں ہے چنانچہ میں نے بعض مواقع پر یہ تعلی آمیز بات بھی کہی کہ یہ سورت مجھے ’’عطا‘‘ کر دی گئی ہے فللّٰہِ الحمدُ والمنّۃ
واضح رہے کہ میرا دعویٰ مفسر قرآن ہونے کا ہرگز نہیں ہے. البتہ میں نے مدرّسِ قرآن کی حیثیت میں ضرور خدمت سرانجام دی ہے لہذا اس سورۂ مبارکہ کے بھی جو دروس میں نے دیے انہیں بعض احباب نے آڈیوکیسٹ کی ٹیپ سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا اور اب وہی دروس کتابی صورت میں ہدیۂ ناظرین کیے جا رہے ہیں اب اگر اس کے ذریعے کسی قاری کا قلبی و ذہنی رابطہ اس سورۂ مبارکہ سے قائم ہو جائے تو بس یہی میرا اصلی مطلوب اور آخری مقصود ہے.
جو صاحب علم حضرات اس کتاب کا مطالعہ کریں اگر ان کے علم میں میری کوئی غلطی آئے تو وہ مجھے اس سے مطلع فرمائیں ‘ میں ممنون اور متشکر ہوں گا. فقط
خاکسار اسرار احمد عفی عنہ
لاہور : ۱۰؍جون ۲۰۰۵ء