ارشاد ہوا:
یَوۡمَ تَرَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتِ یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ بُشۡرٰىکُمُ الۡیَوۡمَ جَنّٰتٌ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ ذٰلِکَ ہُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿ۚ۱۲﴾
’’اُس دن تم دیکھو گے مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں کو کہ ان کا نور ان کے سامنے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا‘(اور ان سے کہا جائے گا) آج تمہیں ایسے باغوں کی بشارت ہے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں. وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے. یہی بڑی کامیابی ہے.‘‘
سچے اہل ایمان کے فوراً بعد منافقین کا تذکرہ آ رہا ہے. یہ قرآن کریم کا ایک خاص اسلوب ہے کہ اہل جنت اور اہل جہنم کا تذکرہ فوری تقابل (simultaneous contrast) کے طور پر ساتھ ساتھ ہوتا ہے. چنانچہ اس کے برعکس کیفیت بیان فرمائی گئی:
یَوۡمَ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الۡمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا انۡظُرُوۡنَا نَقۡتَبِسۡ مِنۡ نُّوۡرِکُمۡ ۚ قِیۡلَ ارۡجِعُوۡا وَرَآءَکُمۡ فَالۡتَمِسُوۡا نُوۡرًا ؕ فَضُرِبَ بَیۡنَہُمۡ بِسُوۡرٍ لَّہٗ بَابٌ ؕ بَاطِنُہٗ فِیۡہِ الرَّحۡمَۃُ وَ ظَاہِرُہٗ مِنۡ قِبَلِہِ الۡعَذَابُ ﴿ؕ۱۳﴾
’’اُس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے ذرا ہمیں مہلت دو اور ہمارا انتظار کرو ‘تاکہ ہم بھی تمہارے نور سے روشنی حاصل کر سکیں‘ تو انہیں کہا جائے گا کہ پیچھے لوٹ جاؤ اور نور تلاش کرو‘ پھر اُن (اہل ایمان اور منافقین) کے درمیان ایک دیوار حائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا‘ اس کے اندر تو رحمت ہو گی اور باہر عذاب ہو گا.‘‘
قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ہمیں میدانِ حشر کے مختلف نقشے ملتے ہیں اور مختلف مکالمات کا ذکر ہے. اس اعتبار سے ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ میدانِ حشر کوئی ایک مرحلہ نہیں ہے ‘بلکہ اُس روز کے احوال مختلف مراحل سے گزر کر تکمیل تک پہنچیں گے. معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرحلہ تو وہ ہے جہاں کافر اور مسلم جدا ہو جائیں گے. یعنی ایک بڑی چھلنی لگے گی جس سے کھلم کھلا باغی و منکر اور مدعی ٔ ایمان جدا جدا ہو جائیں گے. گو یا کافر اِدھر اور مسلم اُدھر ہیں. لیکن اب دنیا میں جو قانونی اعتبار سے مسلمان سمجھے جاتے تھے ان میں مؤمنین صادقین بھی تھے اور منافقین بھی تھے .تو اب ایک اور چھلنی لگے گی جس سے گویا دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہو جائے گا. یہ مرحلہ سورۃ الحدید کی ان آیات میں مذکور ہے. اس کے علاوہ یہی مضمون اس سلسلۂ سور کی آخری سورۃ‘ سورۃ التحریم کی آیت ۸ میں بھی بیان ہواہے. وہاں ارشاد ہوا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾
’’اے ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ کرو‘ کچھ بعید نہیں کہ تمہارا ربّ تم سے تمہاری برائیاں دُور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں. اُس دن اللہ نبی کو اور ان لوگوں کو جو اُس کے ساتھ ایمان لائے‘ رسوا نہیں کرے گا . ان کا نور ان کے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا‘ وہ کہیں گے اے ہمارے ربّ! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر دے اور ہمیں بخش دے ‘یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے.‘‘
تو ان دو مقامات پر یہ مضمون آیا ہے . اور یہ قرآن مجید کا ایک خاص اسلوب ہے کہ آپ کو اہم مضامین کم سے کم دو جگہ ضرور ملیں گے. تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسا مرحلہ لازماً ہوگا جس میں مؤمنین صادقین کو منافقین سے جدا کر دیاجائے گا. اس کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ سے جو شکل اختیار فرمائے گا وہ یہ ہے کہ جن کے دلوں میں ایمان موجود ہوگا ان کا نورِ ایمان ظاہر ہو جائے گا اور وہ ان کے سامنے کی طرف روشنی کرے گا . اور اس ایمان کے تحت جو اعمالِ صالحہ تھے‘ ان کا نور ان کے دائیں جانب ظاہر ہو گا‘ کیونکہ انسان کا دایاں ہاتھ اعمالِ صالحہ کا کاسب ہے. یوں سمجھئے کہ درحقیقت یہ ایمان ایک نور ہے. اس وقت تو نور قلب میں ہے‘ ہمیں نظر نہیں آ رہا ہے ‘جبکہ اس نور کی ایک اور صورت ہے جو وہاں ظاہر ہو گی. اسی طرح ہر نیکی کے اندر ایک نورانیت ہے اور یہ نور ہمیں یہاں نظر نہیں آ رہا‘ لیکن اس کی اصل ماہیت اور اصل حقیقت میدانِ حشر میں اس مرحلے پر واضح ہو جائے گی.