آگے فرمایا: وَ غَرَّتۡکُمُ الۡاَمَانِیُّ ’’اور تمہیں آرزوؤں نے دھوکے میں ڈالے رکھا‘‘. یہ چوتھا مرحلہ ہے کہ انسان اپنے آپ کوکچھ من گھڑت اور خوشنما عقائد سے بہلاتا ہے. اَمَانِیْ لفظ اُمْنِیَّـۃٌ کی جمع ہے اور اسی مادے سے لفظ ’’تمنا‘‘ بنا ہے‘ یعنی خواہشات ‘ آرزوئیں. انگریزی میں انہیں ’’wishful thinkings‘‘ کہتے ہیں. اس کی مثالیں یہود کے عقائد میں موجود ہیں. وہ کہا کرتے تھے : سَیُغۡفَرُ لَنَا ’’عنقریب ہمیں معاف کر دیا جائے گا‘‘. اللہ ہمیں بخش دے گا‘ وہ بخشنہار ہے‘ ہمیں تو بخش ہی دیا جائے گا. ہم میں سے بھی ایک گروہ ہے جو کہتا ہے آخر کچھ بھی ہیں کلمہ گو ہیں‘ کچھ بھی ہیں محمدﷺ کے نام لیوا تو ہیں. وہ یہ بھی کہا کرتے تھے : لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ اِلَّاۤ اَیَّامًا مَّعۡدُوۡدٰتٍ ۪ (آل عمران:۲۴) ’’ہمیں آگ ہرگز نہیں چھوئے گی مگر گنتی کے چند دن‘‘ .اور نَحۡنُ اَبۡنٰٓؤُا اللّٰہِ وَ اَحِبَّآؤُہٗ ؕ (المائدۃ:۱۸) ’’ہم تو (گویا) اللہ کے بیٹے اور اس کے بڑے چہیتے ہیں‘‘. آخر ہم ابراہیم ؑکی نسل سے ہیں‘ تو کیا اللہ تعالیٰ ابراہیم ؑکا بھی کچھ لحاظ نہیں کرے گا جس کو کہ اُس نے اپنا دوست کہا ہے .قرآن مجید کے الفاظ ہیں: وَ اتَّخَذَ اللّٰہُ اِبۡرٰہِیۡمَ خَلِیۡلًا ﴿۱۲۵﴾ (النساء) ’’اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا‘‘. تو کیا اللہ اپنے دوست کی اولاد کی کوئی فکر نہیں کرے گا؟ ہمارے ساتھ عام لوگوں والا معاملہ نہیں ہو گا‘ بلکہ خاص معاملہ ہو گا. تو یہ سب ان کی اَمَانِی ہیں. قرآن جہاں کہیں ان کے عقائد نقل کرتا ہے تو ساتھ ہی فرماتا ہے : تِلۡکَ اَمَانِیُّہُمۡ ؕ کہ یہ ان کی wishful thinkings ہیں ‘یہ ان کے من گھڑت خیالات ہیں. قُلۡ ہَاتُوۡا بُرۡہَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۱۱﴾ (البقرۃ) ’’(اے نبیﷺ ! ان سے) کہیے کہ لاؤ دلیل اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو‘‘. کہیں تورات میں اللہ نے یہ گارنٹی تمہیں دی ہے؟ تو یہ انسان کی اَمانی اور من گھڑت عقائد اسے طفل تسلیاں دیتے ہیں.
آخری بات یہ فرمائی : حَتّٰی جَآءَ اَمۡرُ اللّٰہِ ’’یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ آگیا‘‘.یہ وہی الفاظ آگئے ہیں جو سورۃ التوبۃ کی آیت ۲۴میں ہیں : فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ ’’جاؤ‘ انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ لے آئے‘‘. یعنی یہ جو حق و باطل کی کشمکش ہو رہی ہے اس کے ضمن میں اللہ کا فیصلہ آ جائے .دوسرے یہ کہ اللہ کا فیصلہ موت بھی ہے‘ اللہ کا فیصلہ قیامت بھی ہے. آگے فرمایا: وَ غَرَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ ﴿۱۴﴾ ’’اور وہ بڑا دھوکے باز (شیطان) تمہیں اللہ کے معاملے میں دھوکہ دیتا رہا‘‘.یہاں نوٹ کیجیے کہ یہ لفظ ’غَرور‘ ’غ‘ کے زبر ( َ ) کے ساتھ ہے اور یہ فَعُول کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے‘ جس کا مطلب ہے بہت بڑا دھوکے باز. اس کے علاوہ ایک لفظ ’غُرور‘ ہے جو ’غ‘ کے پیش ( ُ ) کے ساتھ ہوتا ہے. ہم اردو میں بھی غرور کا لفظ استعمال کرتے ہیں کہ اسے بڑا غرور ہے .اور مغرور اس سے اسم الفاعل ہے. تو فرمایا جا رہا ہے کہ ’’تمہیں خوب دھوکہ دیا اُس بہت بڑے دھوکے باز نے‘‘. اس سے شیطانِ لعین مراد ہے. یہ شیطانِ لعین بھی انسان کو مزیدلوریاں دے دے کر سلاتا ہے. اور اس کی لوری یہ ہے کہ اللہ بڑا غفور ہے‘وہ کہاں سزا دے گا! وہ تو لوگوں کو ایسے ہی ڈرانے کے لیے کہتا ہے تاکہ وہ سیدھے ہو جائیں. ورنہ کیا ماں اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں جہنم میں ڈال سکتی ہے؟ تو جو خالق و مالک ہے وہ یہ کیسے کر سکتا ہے! یہ تو صرف کہنے کی باتیں ہیں‘ ہونے والی باتیں نہیں ہیں! یہ عقائد ہمارے ہاں بھی ملنگ قسم کے صوفیوں میں موجود ہیں. وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کا صرف ڈراوا ہی ہے ‘وگرنہ ایسا نہیں ہو گا. اللہ تو بڑا کریم ہے‘ بڑا نکتہ نواز اور بندہ نواز ہے‘وہ بڑا ہی غفور اور رحیم ہے‘ لہذا اس کے بارے میں یہ گمان نہ کرو کہ وہ تمہیں عذاب دے گا . سورۃ الانفطار پوری کی پوری ان کے اسی عقیدے کی تردید میں ہے. فرمایا: یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ ۙ﴿۶﴾ ’’اے انسان! کس شے نے تجھے دھوکہ دیا ہے اپنے ربّ کریم کے بارے میں؟‘‘ وہ کریم بھی ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں ‘لیکن وہ عزیزٌ ذوانتقام (غالب‘ انتقام لینے میں سخت) بھی ہے. وہ قہار بھی ہے ‘وہ شدیدُ العِقَاب (سخت سزا دینے والا) بھی ہے. اس کی تو تمام شانیں ہیں اور ان تمام شانوں کو اپنے سامنے مستحضر رکھنا ضروری ہے.
بندۂ مؤمن کا معاملہ اللہ کے ساتھ ’’بَیْنَ الْخَوْفِ وَالرَّجَاءِ‘‘ والا رہنا چاہیے کہ اس کی شانِ غفاری سے امید بھی ہو کہ اللہ بخش دے گا‘ لیکن اس کی سزا کا اندیشہ اور خطرہ بھی رہے. اس طرح رویہ متوازن رہے گا. اگر ذرا سا بھی رویہ غیر متوازن ہو گیا اور اللہ کی شانِ رحیمی اور شانِ غفاری پر تکیہ زیادہ ہو گیا تونتیجتاً تم ڈھیلے ہو جاؤ گے‘ تمہارے اعصاب ڈھیلے پڑ جائیں گے .اس لیے کہ پھر آدمی خیال کرتا ہے کہ وہ کاہے کو زیادہ کھکھیڑ مول لے‘ کاہے کو زیادہ قربانیاں دے‘ کاہے کو زیادہ مشقتیں جھیلے ‘ کاہے کو پیٹ پر پتھر باندھے‘ کاہے کو اپنی معاش کے دروازے تنگ کرتا چلا جائے‘ کاہے کو اپنے لیے دُنیوی ترقی کے راستے مسدود کرے؟ ظاہر بات ہے یہ سب کچھ تو وہی کرے گا جو سمجھے گاکہ مسئولیت لازماً ہونی ہے‘ ورنہ اللہ کی طرف سے پکڑ اور عذاب کا شدید خطرہ ہے. یہ مضمون اتنا اہم ہے کہ سورۂ لقمان اور سورۂ فاطر میں اس پر پوری پوری آیات آئی ہیں. سورۂ لقمان میں فرمایا گیا ہے :
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ وَ اخۡشَوۡا یَوۡمًا لَّا یَجۡزِیۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِہٖ ۫ وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ ہُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِہٖ شَیۡئًا ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ٝ وَ لَا یَغُرَّنَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ ﴿۳۳﴾
’’اے لوگو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور ڈرو اس دن سے جس دن کوئی باپ اپنے بیٹے کی طرف سے کوئی بدلہ (فدیہ‘ کفارہ وغیرہ) نہیں دے سکے گا ‘ اور نہ ہی کوئی بیٹا اپنے باپ کے کسی درجے میں کام آ سکے گا. (یاد رکھو!) یقینا اللہ کا وعدہ حق ہے‘تو (دیکھنا) تمہیں دنیا کی زندگی دھوکہ نہ دینے پائے‘ اور (دیکھنا) تمہیں اللہ (کی شانِ رحیمی اورشانِ غفاری)پر دھوکہ نہ دے یہ بڑا دھوکے باز (شیطانِ لعین).‘‘
اس کا خلاصہ سورۂ فاطر میں یوں ذکر ہوا ہے :
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ٝ وَ لَا یَغُرَّنَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ ﴿۵﴾
’’اے لوگو! اللہ کا وعدہ یقینا سچا ہے (شدنی ہے‘ جزا وسزا ہو کر رہے گی) .تو (دیکھنا) تمہیں یہ دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے‘ اور (دیکھنا) وہ بہت بڑا دغا باز (شیطان لعین) تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکہ نہ دینے پائے.‘‘
ایک اور جگہ قیامت کا ذکر ان الفاظ میں ہوا ہے : اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰتِیَۃٌ لَّا رَیۡبَ فِیۡہَا (المؤمن:۵۹) یعنی قیامت لازماً آ کر رہے گی ‘اس میں کوئی شک و شبہ نہیں.اور : وَّ اِنَّ الدِّیۡنَ لَوَاقِعٌ ؕ﴿۶﴾ (الذّٰرِیٰت) کہ جزا و سزا واقع ہو کر رہیں گے اور حساب وکتاب ہو کر رہے گا.
بہرحال یہ نفاق کے وہ پانچ مدارج ہیں جن میں ایک صاحب ایمان مبتلا ہو سکتا ہے. یعنی یہ اُس آدمی کا نفاق نہیں ہے جو دھوکہ دینے کے لیے ہی ایمان لایاہو‘ بلکہ یہ ایسا نفاق ہے کہ آدمی ایمان تو لاتا ہے خلوصِ دل سے‘ لیکن پھر اُس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا‘ بلکہ بچ بچ کر چلنا چاہتا ہے‘ جبکہ ایمان تو قربانیاں مانگتاہے. ؏ ’’جس کو ہو جان ودل عزیز اُس کی گلی میں جائے کیوں!‘‘ بچ بچ کر چلنے والوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ ؏ ’’مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز!‘‘ چنانچہ وہ ایک طرح کی باطنی کشمکش میں مبتلا ہو جاتے ہیں. بقول غالبؔ ؏ ’’کعبہ مرے پیچھے ہے ‘ کلیسا مرے آگے!‘‘