ظاہر بات ہے کہ اہل ایمان میں بھی مختلف قسم کی شخصیتیں ہیں. کچھ لوگ اگر دروں بیں قسم کے ہیں‘ یعنی غور و فکر کرنے والے‘ سو چ بچار کرنے والے‘ سلیم الفطرت‘ رقیق القلب لوگ ہیں تو وہ صدیقیت کے مقام پر جا پہنچیں گے اور جن کا مزاج ایسا نہیں ہے وہ کم سے کم شہادت کے مرتبے تک پہنچ جائیں گے. یہ دونوں راستے ان لوگوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں جنہوں نے اپنے باطن سے مال کی محبت کا بریک کھول دیا ہے. لیکن اگر یہ بریک لگا ہوا ہے تو وہ آگے بڑھ ہی نہیں سکتے‘ ان کے لیے کوئی ترفع اور ترقی نہیں ہے ‘وہ تو بس نام کے مسلمان ہیں جو جیسے بھی ہیں چل رہے ہیں . لیکن اگرکسی نے دل سے مال کی محبت کو کھرچ دیا ہو اور پھر اللہ پر ایمان لایا ہو تو وہ مرتبہ ٔصدیقیت پر فائز ہو سکتا ہے. اس کی تفصیل سورۃ الحدید کی آیت ۱۸ اور ۱۹ میں ہے.

البتہ اس میں یہ مغالطہ ہرگز نہ آنے پائے کہ جس شخص کو نبیؐ کی دعوت براہِ راست پہنچی ہو اور اُس نے اس پر لبیک کہا ہو صرف وہی مرتبہ صدیقیت پر فائز ہو سکتا ہے‘ بلکہ ہم میں سے بھی ہر شخص یہ رتبہ ٔ خاص حاصل کر سکتا ہے. ہم نسلی طور پر مسلمان ہیں‘ عقیدۃً ایمان ہمارے پاس ہے‘ لیکن شعوری ایمان نہیں ہے. تو آج بھی ہم اس کی تحصیل کر سکتے ہیں. تجدید ِایمان اسی کا نام ہے .ہر گناہ کے بعد جب انسان توبہ کرتا ہے تو وہ تجدید ایمان ہے. سورۃ الفرقان کا آخری رکوع ہمارے اس منتخب نصاب کے حصہ سوم میں شامل ہے. اس میں آیات ۶۸ تا ۷۰ میں توبہ کا مضمون بڑے خوبصورت انداز میں آیا ہے.فرمایا:

وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا ﴿ۙ۶۸﴾یُّضٰعَفۡ لَہُ الۡعَذَابُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ یَخۡلُدۡ فِیۡہٖ مُہَانًا ﴿٭ۖ۶۹﴾اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا ﴿۷۰﴾ 
’’اور(رحمن کے بندے وہ ہیں) جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے‘ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں. یہ کام جو کوئی کرے گا وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا. قیامت کے دن اس کاعذاب دوگنا کر دیا جائے گا اور وہ اس میں ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا. اِلّا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگاہو توایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا‘ اور وہ بڑا غفور و رحیم ہے.‘‘

درحقیقت تجدید ایمان‘ توبہ اور تجدید ِعہد ہم معنی الفاظ ہیں 
(۱.بہرحال آج بھی مرتبۂ (۱) یہ تین الفاظ ہم نے تنظیم اسلامی کی دعوت کی بنیاد کو واضح کرنے کے لیے اختیار کیے تھے اور ہماری بہت سی مطبوعات پر یہ بلاک شائع ہوتا ہے : ’’تنظیم اسلامی کی اساسی دعوت : تجدیدِ ایمان‘ توبہ اور تجدید عہد ‘‘. صدیقیت تک پہنچنے کا راستہ کھلا ہے. یہ جان لیجیے نبوت کا دروازہ بند ہے‘ پہلے بھی وہ وہبی تھی‘ کسبی نہیں تھی‘ لیکن اب تو اس کا دروازہ مستقلاً بند ہے‘ البتہ ’’صِدّیقیّت‘‘ اور ’’شہادت‘‘ کے مراتب کھلے ہیں. افتادِ طبع کے اعتبار سے انسان ترقی کر کے ان مراتب عالیہ کی تحصیل کر سکتا ہے. اور صالحین کا درجہ تو base line کی حیثیت رکھتا ہے.تو ان دونوں آیات (الحدید:۱۸۱۹کے ربط سے واضح ہوا کہ جو لوگ اس مشکل گھاٹی کو عبور کر جائیں‘ یعنی مال کی محبت سے نجات حاصل کر لیں اور پھر ایمان کے زیور سے آراستہ ہوں تو اُن کے لیے مرتبہ صدیقیت یا مرتبہ ٔشہادت تک رسائی حاصل کرنے کا راستہ کھلا ہے.