مقامِ صدیقیت کے اجزائے ترکیبی

مقام صدیقیت کے اجزائے ترکیبی کی قدرے وضاحت مفید مطلب ہے. مقامِ صدیقیت کے یہ اجزائے ترکیبی سورۃ اللیل میں simultaneous contrast کے اعتبار سے بیان ہوئے ہیں (۱.اس سورۂ مبارکہ میں تین اوصافِ حمیدہ مقام (۱) ’’شہید مظلوم‘‘ کے نام سے میرا ایک کتابچہ موجود ہے جس میں بنیادی طور پر یہ مضامین آ گئے ہیں. صدیقیت پر فائز شخصیت کے بیان ہوئے ہیں اور تین ہی اوصافِ رذیلہ اس کے برعکس شخصیت کے بیان ہوئے ہیں . فرمایا: 

وَ الَّیۡلِ اِذَا یَغۡشٰی ۙ﴿۱﴾وَ النَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی ۙ﴿۲﴾وَ مَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَ الۡاُنۡثٰۤی ۙ﴿۳﴾اِنَّ سَعۡیَکُمۡ لَشَتّٰی ؕ﴿۴
’’گواہ ہے رات جبکہ وہ ڈھانپ لیتی ہے ‘ اور (گواہ ہے) دن جبکہ وہ روشن ہوجاتا ہے ‘اور وہ نر اور مادہ جو اللہ نے تخلیق کیا. یقینا (اے لوگو!) تمہاری کوششیں بھی مختلف قسم کی ہیں.‘‘

پہلے تو اللہ تعالیٰ نے قسموں کی صورت میں استشہاد کیا ہے کہ اے لوگو!جیسے رات کی تاریکی اور دن کی روشنی میں اور نر اور مادہ (اور مردد و عورت) میں فرق و تفاوت ہے ‘ اسی طرح تمہاری کوششوں اور سعی و جہد میں اور تمہارے انجام میں بھی فرق و تفاوت ہے. آگے وہ صفات بیان کی جا رہی ہیں: 

فَاَمَّا مَنۡ اَعۡطٰی وَ اتَّقٰی ۙ﴿۵﴾وَ صَدَّقَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۶﴾ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡیُسۡرٰی ؕ﴿۷﴾وَ اَمَّا مَنۡۢ بَخِلَ وَ اسۡتَغۡنٰی ۙ﴿۸﴾وَ کَذَّبَ بِالۡحُسۡنٰی ۙ﴿۹﴾فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡعُسۡرٰی ﴿ؕ۱۰﴾ 
’’تو جس نے (اللہ کی راہ میں) مال دیا اور (اللہ کی نافرمانی سے) پرہیز کیا‘ اور بھلائی کو سچ مانا‘ اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت دیں گے. اور جس نے بخل کیا اور (اپنے خدا سے )بے نیازی برتی اور بھلائی کو جھٹلایا ‘اس کو ہم سخت راستے کے لیے سہولت دیں گے.‘‘

صدیق کا پہلا وصف یہ ہے کہ اس میں عطا اور جود و سخاوت ہوتی ہے. وہ لوگوں کی مشکلات کو دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے‘ بھوکوں کو کھانا کھلاتا ہے. دوسرا وصف یہ ہے کہ اس کے اندر تقویٰ ہوتا ہے .وہ کسی کا دل نہیں دکھانا چاہتا‘ کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا‘ کسی پر دست درازی اور تعدی نہیں کرناچاہتا. اور تیسرا وصف یہ کہ وہ ہر اچھی بات کی تصدیق کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے. اس کے اندر تعصب نہیں ہوتا‘ عصبیت‘ ضد اور ہٹ دھرمی نہیں ہوتی. اس کے سامنے جب کوئی ایسی بات آتی ہے کہ اس کا دل گواہی دے کہ بات صحیح ہے تو اسے فوراً تسلیم کر لیتا ہے.وہ یہ نہیں سوچتا کہ 
دوسرے کی بات مان لینے سے اس کی جیت اور میری ہار ہو جائے گی. ہونا بھی یہی چاہیے کہ صحیح اور حق بات جس کی صحت پر دل بھی گواہی دے رہا ہو ‘فوراً قبول کر لی جائے. تو جس شخص میں یہ تین اوصاف جمع ہو جائیں تو وہ مقامِ صدیقیت پر فائز ہے . جیسے اقبال نے کہا ؏ ’’یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان‘‘.امام رازیؒ نے اس سورۂ مبارکہ کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ سورتِ صدیق اکبر ہے‘ یعنی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی سورت ہے. اس لیے کہ اِس اُمت میں سب سے زیادہ متقی شخص وہی ہیں‘جن میں یہ تینوں اوصاف بتمام و کمال جمع ہو گئے تھے.

اس کے برعکس جو شخص اِن تینوں اوصاف سے خالی ہو وہ بدترین مخلوق ہے. اُس میں صفت عطا کے برعکس بخل ‘ اور تقویٰ کے برعکس اللہ سے استغناء اور بے پروائی ہوتی ہے. اسے حلال و حرام کی فکر ہی نہیں ہوتی. اس کا جہاں ہاتھ پڑتا ہے‘ حلال و حرام سے بے نیاز ہو کر ‘اسے حاصل کرلیتا ہے. جس کا چاہتا ہے استحصال اور حق تلفی کرتا ہے‘ جس پر چاہتا ہے ظلم کرتا ہے ‘جس کا چاہتا ہے دل دکھاتا ہے اور جس کی عزت پر چاہے حملہ کرتا ہے. یہ استغناء اور بے نیازی ہے. تیسرے درجے میں وہ صحیح و عمدہ بات اور سچائی و صداقت کی تکذیب کرتا ہے. اس شخص کے بارے میں ارشاد الٰہی ہے: فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلۡعُسۡرٰی ﴿ؕ۱۰﴾ ’’تو ہم رفتہ رفتہ اسے العسریٰ (تنگی) تک پہنچا دیں گے‘‘. یعنی جہنم تک‘ جو بڑی تنگی اور سختی کی جگہ ہے.