اس حصے کی سب سے پہلی آیت بھی میرے نزدیک قرآن کریم کی عظیم ترین آیات میں سے ہے. میرے مشاہدے کی حد تک اس آیت کی بھی اصل حقیقت تک بہت کم لوگوں کی رسائی ہوسکی ہے. اس لیے کہ یہاں پانچ الفاظ جس حسن ترتیب کے ساتھ آئے ہیں اس میں ایک بہت بڑی حکمت مضمر ہے جس کی طرف توجہ نہیں کی گئی. یہ مضمون کہ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا ہے اور دھوکے کی ٹٹی ہے‘ یہ اس اعتبار سے ہے کہ اگر دنیا خود مطلوب و مقصود بن جائے اور آخرت سے غافل کر دے.چنانچہ آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ ﴿۲۰﴾ ’’دنیا کی زندگی دھوکے کے سامان کے سوا کچھ نہیں‘‘. کوئی شخص اگر غریب الوطنی کی کیفیت یعنی حالت ِمسافرت میں ہو اور اپنا اصل گھر‘ اصل وطن اور اصل منزل بھول جائے تو معلوم ہوا کہ وہ بہت ہی بدنصیب شخص ہے. تو دنیا اگر اس طریقے سے کسی انسان کو اپنے اندر جذب کر لے ‘ متوجہ کر لے کہ اس کی اصل زندگی پس پردہ چلی جائے تو اس اعتبار سے دنیا کی زندگی سراسر دھوکے کا سامان ہے. اس مضمون کو سورۃ العنکبوت میں یوں بیان کیا گیا ہے :
وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾
’’یہ دُنیا کی زندگی تو کھیل کود اور تماشے کے سوا کچھ نہیں. اصل زندگی تو آخرت کے گھر کی زندگی ہے‘ کاش کہ انہیں معلوم ہوتا.‘‘
پس اگر حیاتِ دُنیوی انسان کو آخرت سے غافل کر دے تو اس سے بڑا دھوکے کا سامان کوئی نہیں. اس معنی میں بہت سی جگہوں پر قرآن مجید میں یہ مضمون آیا ہے ‘ بلکہ ’’ لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ‘‘ اور ’’لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ‘‘ دونوں ترکیبوں کے ساتھ آیا ہے‘ لیکن جس شان سے یہاں سورۃ الحدید میں آیا ہے اور پھر اس پر جو اضافہ ہے ‘ میں پھر عرض کر رہا ہوں کہ یہ قلت ِتدبر ہی ہے کہ اس پر لوگوں نے غور ہی نہیں کیا کہ یہ الفاظ کس ربط کے ساتھ آ رہے ہیں.فرمایا: اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ ان الفاظ کی ترجمانی یوں ہو گی کہ ’’جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی تو بس یہی کچھ ہے کہ کھیل ہے‘ کچھ لذت حاصل کرنا ہے‘ کچھ زینت اور بناؤ سنگھار ہے‘کچھ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور کچھ مال اور اولاد کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش ہے‘‘. یہ پانچ الفاظ جو یہاں آئے ہیں ان کو اسی ترتیب سے رکھ کر یہ مضمون بیان کیا جاسکتا ہے. لیکن ان کی جو اصل عظمت ہے وہ اس حوالے سے ہے کہ یہ اصل میں حیاتِ انسانی کے پانچ ادوار ہیں جو اِس ترتیب سے آئے ہیں . ہمارے اردو یا عربی کے محاورے میں عام طور پر’’لہو و لعب‘‘ کا لفظ آتا ہے‘ لیکن یہاں پر ’’ لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ ‘‘ کی ترکیب آئی ہے‘تو یہ ویسے ہی نہیں ہے بلکہ بڑی حکمت کی حامل ہے!