اب اگلی آیات میں جو مضمون آ رہا ہے یہ اس سے پہلے سورۃ التغابن میں بڑی وضاحت سے آ چکا ہے. یہاں اگرچہ لفظاً زیادہ تفصیل ہے‘ لیکن وہاں کم الفاظ میں معناً یہ بات آ چکی ہے. اس دنیا کی زندگی میں انسان مختلف حوادث اور آفاتِ ارضی و سماوی سے بہت متاثر ہوتا ہے‘ جو بسا اوقات بڑے پیمانے پر آ جاتی ہیں. کبھی زلزلہ آ جاتا ہے تو ہزاروں انسان اس میں ختم ہو جاتے ہیں‘ مکانات دھنس جاتے ہیں‘ یا سیلاب آتا ہے تو بڑے پیمانے پر لوگ ڈوب جاتے ہیں‘ ان کے گھر ختم ہو جاتے ہیں اور بڑے بڑے رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں‘ یا بیٹھے بٹھائے انسان کے اپنے اندر اچانک (۱) صحیح البخاری‘ کتاب المرضی‘ باب تمنی المریض الموت. وصحیح مسلم‘ کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار‘ باب لن یدخل احد الجنۃ بل برحمۃ اللّٰہ تعالٰی. کوئی بیماری جنم لے لیتی ہے جبکہ اسے اس کا کوئی خیال بھی نہیں ہوتا.اچانک معلوم ہوتا ہے کہ کینسر ہے یا معلوم ہوتا ہے کہ دل کی شریانیں اتنے فیصد blocked ہیں. بعض اوقات انسان بیٹھے بٹھائے کسی مقدمے میں پھنس جاتا ہے. اب ان چیزوں کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے. تو فرمایا جا رہا ہے: مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ ’’نہیں نازل ہوتی کوئی نازل ہونے والی زمین میں اور نہ تمہارے اپنے نفسوں میں مگر یہ کہ وہ ایک کتاب میں درج ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کریں‘‘. یہاں پرلفظ ’’مُصِیْبَۃ‘‘ کی لغوی تشریح سمجھ لیجیے ! اَصَابَ‘ یُصِیْبُ (آپڑنا‘ نازل ہونا) سے اسم الفاعلمُصِیْب ہے اور اس کی مؤنث مُصِیْبَۃ ہے‘ جس کے معنی ہیں نازل ہونے والی شے‘ آپڑنے والی شے. یعنی جو بھی کوئی کیفیت آپ پر یا مجھ پر وارد ہوتی ہے ‘چاہے وہ اچھی ہوچاہے بری ہو‘ چاہے تکلیف دہ ہو‘ چاہے مسرت بخش ہواُس پر اس لفظ کا اطلاق ہو سکتا ہے. گویا جہاں تک اس لفظ کا لغوی تعلق ہے تمام حوادث‘ واقعات‘ کیفیات جو ہم پر وارد ہوتی ہیں ‘وہ سب کی سب اس میں شامل ہو جائیں گی‘ لیکن عام طور پر یہ لفظ تکلیف دہ ‘ناگوار اور ناپسندیدہ چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے.
اس آیت میں فِی الۡاَرۡضِ وَ لَا فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ کے الفاظ لا کر مصائب کی بھی تقسیم کر دی گئی ہے. مصیبتیں دو قسم کی ہیں .یا تو سماوی یا آفاقی مصیبتیں ہیں جو زمین پر بڑے پیمانے پر نازل ہوتی ہیں یا انسان کی اپنی جانوں میں کوئی مصیبت آن پڑتی ہے‘ مثلا ً کوئی بیماری یا کوئی اور عارضہ لاحق ہو گیا ہے‘ آدمی کا کوئی عضو کٹ گیا ہے یا کوئی اور حادثہ پیش آگیا ہے. تو فرمایا : اِلَّا فِیۡ کِتٰبٍ مِّنۡ قَبۡلِ اَنۡ نَّبۡرَاَہَا ؕ ’’مگر وہ ایک کتاب میں درج ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے ظاہر کریں‘‘ اس کو وجود میں لائیں‘ اس کو خلعت ِوجود سے سرفراز کریں.