سورۃ الحدید کی آیت ۲۵ قرآن حکیم کی عظیم ترین ’’انقلابی‘‘ آیت
٭ اِرسالِ رُسل اور اِنزالِ کتاب و میزان کی غرض و غایت: قیامِ عدل و قِسط
٭ اور اس کے لیے ضرورت پڑنے پر لوہے کی طاقت یعنی اسلحہ کے استعمال کے ذریعے
اللہ اور اُس کے رسولوں کی نصرت!
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
لَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿٪۲۵﴾
اب اس سورۂ مبارکہ کی آیت ۲۵ زیر مطالعہ آئے گی جسے میں ایک مستقل حصہ قرار دے رہا ہوں اور یہ درحقیقت اس پوری سورۂ مبارکہ کا نقطہ عروج ہے. انقلاب جس شے کا نام ہے اس کے تعبیری مفہوم (connotation) کو آپ اچھی طرح سمجھ لیجیے! انقلاب کہتے ہیں کسی اجتماعی نظام کو بدل دینا. ظاہر بات ہے کہ جو رائج الوقت Politico-Socio- Economic System ہے اس کو تلپٹ کریں گے‘ اس کا تختہ الٹیں گے تو کوئی اور نظام آئے گا. اس کے بغیر کسی دوسرے نظام کے لیے موجودہ نظام (existing system) جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں ہو گا.انقلابی عمل میں وعظ‘ نصیحت‘ تلقین‘ تعلیم‘ تبلیغ‘ یہ سب اپنی جگہ پر بہت ضروری ہیں‘ اس کا نقطہ آغاز یہی ہے‘ لیکن اس کے بعد ایک مرحلہ آتا ہے جہاں طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے. اس لیے کہ تلقین و تعلیم‘ وعظ و نصیحت اور دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں تمام طبقات سے نیک سرشت لوگ توبلاشبہ کھنچ آئیں گے‘ جیسے کہ مقناطیس لوہ چون کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے‘ اور برادہ باقی رہ جائے گا.
لیکن یہ ’’برادہ ‘‘وہ لوگ ہیں جن کے رائج الوقت نظام کے ساتھ مفادات وابستہ ہیں. ہمارے معاشرے میں جاگیردار کا ایک اپنا مقام ہے‘ وہ پورے علاقے کا مالک اور بادشاہ سمجھا جاتا ہے اور وہاں پر بسنے والے باقی لوگ اس کے کمی کاری ہیں‘ وہ اس کی رعیت شمار ہوتے ہیں.چنانچہ جاگیردار کبھی بھی اس کو برداشت نہیں کر سکتے کہ جاگیردارانہ نظام ختم ہوجائے. اس کے لیے ظاہر بات ہے کہ بالآخر طاقت کا استعمال ناگزیر ہے. دراصل یہ بات کہتے ہوئے انسان جھجکتا ہے. لوگ کہتے ہیں کہ قتل و خون ریزی اور غارت گری کوئی اچھی بات نہیں ہے‘ طاقت اور اسلحہ کا استعمال کوئی مستحسن کام‘ نہیں ہے‘ بس ٹھنڈی ٹھنڈی بات ہو جائے‘ اور بڑی ہی آسانی کے ساتھ صرف دعوت و تبلیغ سے کوئی انقلاب آجائے تو بہت اچھا ہے. لیکن قرآن مجید نے اس آیت مبارکہ میں اس تلخ حقیقت کو بالکل عریاں انداز میں بیان کر دیا ہے‘ تاکہ کوئی اشتباہ نہ رہ جائے‘ بات بالکل واضح ہوجائے. پورا انقلابی عمل آپ کو اس ایک آیت کے اندرمل جائے گا.