آیت ۲۹ کا تفسیری اشکال اور اس کا حل

لِّئَلَّا یَعۡلَمَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اَلَّا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ وَ اَنَّ الۡفَضۡلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿٪۲۹

’’(یہ اس لیے ہے ) تاکہ اہل کتاب یہ نہ سمجھ لیں کہ اللہ کے فضل پر اب ان کا کوئی حق نہیں ہے‘ اور یہ کہ اللہ کا فضل اس کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے‘ جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے ‘اور وہ بڑے فضل والا ہے.‘‘

اس آیت کی تاویل میں بڑا قیل و قال ہے اور میرے نزدیک اس بحث کا اکثر و بیشتر حصہ بالکل بغیر کسی بنیاد کے ہے. بدقسمتی سے بعض مقامات پر ہمارے مفسرین خواہ مخواہ کی بحثوں میں بہت اُلجھ گئے ہیں. یہاں 
’’لِّئَلَّا‘‘ میں جو ’’لَا‘‘ ہے اس کے بارے میں اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ یہ زائد ہے اور اصل میں مراد یہ ہے : ’’لِــــــــکَیْ یَعْلَمَ اَھْلُ الْکِتٰبِ اَ نْ لاَّ یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْ ءٍ‘‘ یعنی’’تاکہ یہ معلوم ہو جائے تمام اہل کتاب کو کہ ان کی کوئی اجارہ داری نہیں ہے (کوئی ٹھیکے داری نہیں ہے) اللہ کے فضل پر‘‘.یہود کا تصور تھا کہ نبوت و رسالت تو ہماری میراث تھی‘ دو ہزاربرس تک تو یہ ہمارے پاس رہی‘ اب یہ آخری نبوت و رسالت کہاں چلی گئی! تو فرمایا کہ ان پر یہ بات کھل جائے‘ واضح ہو جائے کہ یہ کوئی تمہاری اجارہ داری نہیں تھی‘ نبوت و کتاب کا یہ معاملہ اب ہم نے بنی اسماعیل کے حوالے کیا ہے اور محمد رسول اللہ خاتم النبیین اور سید المرسلین کی حیثیت سے مبعوث ہو گئے ہیں. تو یہ بات ان کے سامنے کھل جانی چاہیے اور کوئی اشتباہ نہیں رہنا چاہیے کہ نبوت و کتاب پر ان کا کوئی اختیار ‘کوئی ٹھیکیداری ‘ کوئی اجارہ داری نہیں ہے . یہ تو اللہ کا فضل ہے جو اللہ ہی کے اختیارمیں ہے‘ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے. اس لیے کہ اللہ خوب جانتا ہے کہ نبوت و کتاب کس کو دینی ہے. ازروئے الفاظِ قرآنی: اَللّٰہُ اَعۡلَمُ حَیۡثُ یَجۡعَلُ رِسَالَتَہٗ ؕ (الانعام:۱۲۴’’اللہ خوب جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے‘‘. اللہ جو فیصلہ کرتا ہے اپنے علم کامل کی بنیاد پر کرتا ہے. 

لِّئَلَّا یَعۡلَمَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اس کا ایک تو یہ مفہوم ہے ‘ لیکن اس میں ’’لَا‘‘ زائد ماننا پڑتاہے.اس لائے زائدہ کے بارے میں میں مولانا اصلاحی صاحب اور ان کے ہم خیال لوگوں سے بالکل متفق ہوں کہ قرآن مجید میں کہیں کوئی لفظ زائد نہیں آیا. کتابت میں ضرور کچھ حرف زائد آ گئے ہیں. چنانچہ کسی جگہ پر آپ دیکھتے ہوں گے کہ ’’الف‘‘ لکھا ہوا ہے اور اوپر گول دائرہ بنا ہوا ہے اور یہ الف پڑھنے میں نہیں آتا. وہ کتابت کا مسئلہ ہے اور کتابت خالص انسانی معاملہ تھا. قرآن لکھا ہوا نازل نہیں ہوا . وہ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سے حضور نے سنا ہے اور حضور سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سنا ہے. کتابت ایک اگلا مرحلہ ہے جو انسانی ہاتھوں سے ہوا ہے. ہمارے ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جو رسم عثمانی ہے‘ یہ سب سے زیادہ ثقہ (authentic) ہے‘ اس میں بھی بعض حروف اضافی ہیں‘ لیکن قرآن مجید کے ٹیکسٹ میں کوئی لفظ زائد از ضرورت نہیں ہے.

ایک 
’’لا‘‘ جو عام طور پر قسموں کے شروع میں آجاتا ہے ‘ جیسے لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾ اور لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾ بہت سے مفسرین اس کے بارے میں بھی کہہ دیتے ہیں کہ ’’لَا‘‘ زائدہ ہے. حالانکہ اس کی صحیح ترین تاویل مولانا فراہی نے کی ہے جس کی مولانا اصلاحی نے وضاحت کی ہے کہ یہاں پر اصل میں مخاطب کے کسی خیال کی نفی سے بات شروع کی جا رہی ہے کہ تم جو کچھ سوچ رہے ہو حقیقت وہ نہیں ہے. چنانچہ : لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾ کا ترجمہ ہو گا .Nay, I swear the day of Judgement ’’نہیں‘ میں قیامت کے دن کی قسم کھاتاہوں‘‘.تمہارے خیالات‘ تمہارے شکوک پادر ہوا ہیں‘ بے بنیاد ہیں‘ ان کی کوئی حقیقت نہیں. مجھے قیامت کے دن پر اتنا یقین ہے کہ میں اس پر قسم کھا رہا ہوں. یہ بہت ہی بلیغ اسلوب ہے. تو جتنی بھی قسموں کے شروع میں ’’لَا‘‘ آ گیا ہے وہ لاء زائد نہیں ہے بلکہ وہ اصل میں مخاطبین کے خیالات کی نفی ہے. اسی طرح بعض مقامات پر ’’لَا‘‘ مجرد تاکید کے لیے آیا ہے. جیسے : مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسۡجُدَ (الاعراف:۱۲’’تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا؟‘‘ جب شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تھاتو اس سے فرمایا کہ ’’ کس چیز نے تجھے روکا کہ تو سجدہ نہیں کر رہا؟‘‘ حالانکہ روکنے میں نہ کرنے کا مفہوم داخل ہے . اگرچہ ’’مَا مَنَعَکَ اَنْ تَسْجُدَ‘‘ سے بھی بات پوری ہو جائے گی لیکن یہاں پر ’’لَا‘‘ تاکید مزید کے لیے ہے‘ بے کار و بے معنی نہیں ہے .ہر زبان کے اندر یہ اسلوب ہوتے ہیں کہ کسی چیز پر زور دینے کے لیے نفی کا اضافہ کرتے ہیں. جس طرح سورۃالانبیاء کی آیت ۹۵ ہے: وَ حَرٰمٌ عَلٰی قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَاۤ اَنَّہُمۡ لَا یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۹۵﴾ ’’اور حرام ہے ان بستیوں پر جن کو ہم نے ہلاک کیا کہ وہ اب لوٹیں گے نہیں‘‘. حَرَامٌ کے بعدیہاں پر’’لَا ‘‘ کی ضرورت نہیں ہے‘ لیکن یہ بھی اصل میں تاکید مزید کے لیے ہے.چنانچہ آیت زیر مطالعہ میں ہم ’’لَا‘‘ کو ہرگز زائد اور بے معنی نہیں کہہ سکتے. 

ہمارے ایک کرم فرما ہندوستان کے عالم دین مولانا اخلاق حسین قاسمی صاحب کی رائے اس قسم کے اشکالات میں سب سے زیادہ صائب ہوتی ہے. چنانچہ مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی اور حیرانی ہوئی کہ انہوں نے صاف کہا ہے کہ یہاں پر 
’’لَا‘‘ قطعاً زائد نہیں ہے ’’لَا‘‘ اپنی جگہ پر صحیح ہے اور اس سے اصلاًمراد یہ ہے کہ ’’تاکہ نہ سمجھیں وہ لوگ جو اہل کتاب تھے کہ وہ اب ہمیشہ کے لیے محروم ہو گئے ہیں اللہ کے فضل سے‘‘.یہاں پر ’’لَا یَقۡدِرُوۡنَ‘‘ اجارہ داری کی نفی کے لیے نہیں ہے‘ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اب وہ یہ نہ سمجھیں کہ محروم ہو گئے ہیں بلکہ اب بھی ان کے لیے راستہ کھلا ہے. آئیں اور ایمان لے آئیں محمد پر. اس کی مثال سورۂ بنی اسرائیل کے شروع میں آئی ہے جہاں بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۘ (آیت ۸’’ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے! لیکن اگر تم نے پھر (اپنی سابق روش کا) اعادہ کیا تو ہم بھی پھر(اپنی سزا کا) اعادہ کریں گے‘‘.یعنی اب بھی تمہارا ربّ تم پر رحم فرمانے کے لیے تیار اور آمادہ ہے‘ اس کی آغوشِ رحمت وا ہے ‘ آؤ ‘ ایمان لاؤ. اگلی آیت میں فرمایا: اِنَّ ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ یَہۡدِیۡ لِلَّتِیۡ ہِیَ اَقۡوَمُ ’’یقینایہ قرآن ہدایت دے رہا ہے سیدھے راستے کی طرف‘‘.تو وہی بات یہاں پر کہی جا رہی ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ تم اب راندۂ درگاہ ہو گئے ہو‘ محروم ہو گئے ہو‘ تمہارے لیے خیر کا کوئی راستہ کھلا رہ ہی نہیں گیا ہے ‘جیسے کہ اس سے پہلے اسی سورۃ الحدید کی آیت ۱۷ میں فرمایا گیا ہے کہ ’’جان لو! اللہ تعالیٰ زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد زندہ کر دیتا ہے‘‘ تو اگر تمہارے دلوں میں بھی مردنی ہے تو ہم تمہیں بھی دوبارہ زندگی عطا کر دیں گے. تو جیسے تشویق و ترغیب کا پہلو وہاں آیا ہے درحقیقت وہی تشویق و ترغیب یہاں اہل کتاب کے لیے ہے ‘چاہے وہ یہود ہوں یا نصاریٰ ہوں. لہذا فرمایا جا رہا ہے کہ نہ سمجھیں وہ لوگ جو اہل کتاب میں سے ہیں کہ اب وہ اللہ کے فضل پر بالکل ہی کوئی قدرت نہیں رکھتے‘ اب اللہ کا فضل ان کی دسترس سے ہی باہر ہو چکا ہے‘ اب فضل خداوندی کے دروازے ان پر مستقلا ً اور کلیتاً بند ہو گئے ہیں. نہیں‘ اللہ کے فضل کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے‘ اس کی رحمت کی آغوش وا ہے‘ آؤ اور اللہ کی رحمت سے ہمکنار ہو جاؤ ‘اور اس کا راستہ یہی ہے کہ قرآن پر ایمان لاؤ اور محمد رسول اللہ پر ایمان لاؤ!

میں یہ تحقیق کر کے حیران ہوا کہ 
’’لَا یَقۡدِرُوۡنَ ‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں صرف تین جگہ آیا ہے. ایک تو یہی سورۃ الحدید کا مقام ہے ‘ باقی دو مقامات وہ ہیں جہاں آخرت میں مسلمان ریاکاروں کی نیکیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے. ایک تو سورۃ البقرۃ کی آیت۲۶۴ ہے جہاں انفاق کا موضوع اپنی پوری تکمیلی شان کے ساتھ آیا ہے. فرمایا: لَا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ ’’جو بھی کمائی انہوں نے کی ہو گی اس میں سے کچھ بھی ہاتھ پلے نہیں آئے گا‘‘. دوسرا مقام سورۂ ابراہیم کی آیت ۱۸ ہے جہاںالفاظ کی ترتیب میں تھوڑے سے فرق کے ساتھ فرمایا گیا: لَا یَقۡدِرُوۡنَ مِمَّا کَسَبُوۡا عَلٰی شَیۡءٍ ؕ ’’وہ کوئی بھی قدرت نہیں رکھتے اس پر انہوں نے جو بھی کمائی کی تھی‘‘.اب یہاں اجارہ داری کا تو کوئی بھی سوال پیدا نہیں ہوتا. یہاں پر جن لوگوں نے اجارہ داری اور ٹھیکے داری کا مفہوم شامل کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ نظائر قرآنی سے سرے سے استفادہ نہیں کرتے. میں نے دیکھا ہے کہ اکثر و بیشتر ایسے معاملات کے اندر شاہ عبدالقادرؒ سے صحیح رہنمائی ملتی ہے .یہاں پر میرا وہ اصول بھی پختہ ہو گیا کہ قرآن مجید میں اہم مضامین کم از کم دو جگہوں پر ضرور آتے ہیں اور اکثر و بیشتر ترتیب عکسی ہو جاتی ہے. تو منافقین سے فرمایا جا رہا ہے کہ جن کو وہ نیکیاں سمجھ رہے تھے وہ تو محض سراب ہے. جیسے سورۃ الفرقان میں فرمایا گیا: وَ قَدِمۡنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوۡا مِنۡ عَمَلٍ فَجَعَلۡنٰہُ ہَبَآءً مَّنۡثُوۡرًا ﴿۲۳﴾ اورسورۂ ابراہیم میں ارشاد ہوا: مَثَلُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِرَبِّہِمۡ اَعۡمَالُہُمۡ کَرَمَادِۣ اشۡتَدَّتۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ یَوۡمٍ عَاصِفٍ ؕ (آیت ۱۸’’جو لوگ اپنے ربّ کے منکر ہوئے ان کا حال یہ ہے کہ ان کے اعمال اس راکھ کی مانند ہیں جس پر زور کی ہوا چلے آندھی کے دن.‘‘ جیسے کہ راکھ کا ایک ڈھیر تھا‘ ایک جھکڑ آیا اور وہ راکھ بکھر گئی‘ ایسے ہی ان کی نیکیاں اور اعمال ہوں گے. ’’لَا یَقۡدِرُوۡنَ ‘‘ مذکورہ بالا دونوں جگہ پر انہی الفاظ میں تھوڑی سی لفظی تاخیر و تقدیم کے ساتھ آیاہے اور دونوں جگہ اِس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز دسترس سے باہر ہو جائے ‘کسی کی قدرت میں نہ رہے‘ کسی کے لیے قابل حصول نہ رہے. وہی مفہوم یہاں آ رہا ہے کہ نہ مایوس ہو جائیں‘ نہ بددل ہو ں اہل کتاب کہ اب تو اللہ کے فضل میں سے کچھ بھی ان کی دسترس میں نہیں رہا‘ وہ تو محرومِ مطلق ہو گئے‘ وہ تو ہمیشہ کے لیے راندۂ درگاہ ہو گئے. نہیں‘ ابھی ان کے لیے دروازہ کھلا ہے ‘ایمان لاؤ محمد پراور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت کے مستحق بن جاؤ. اور آیت ماقبل میں بھی یہی بات فرمائی گئی ہے. اب آگے فرمایا جا رہا ہے : وَ اَنَّ الۡفَضۡلَ بِیَدِ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ ’’اور یہ کہ فضل توکل کا کل اللہ کے اختیار میں ہے ‘جس کو چاہتا ہے دیتا ہے‘‘. اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کرو اور اہل ثابت کرنے کے لیے نیت درست کر لو‘ تمہارے اندر واقعتاً طلب صادق ہو. واقعتا اگر ہدایت‘حق اور خیر کے خواہاں اور طالب ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت کی دولت عطا فرمائے گا. وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿٪۲۹﴾ ’’اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘.اُس کے فضل کے خزانے میں کوئی کمی نہیں ہے. یہ نہ سمجھو کہ ہم نے انہیں اپنے فضل سے نوا زدیا ہے تو تم محروم ہو گئے ہو. ہمارے خزانے تو لامتناہی ہیں‘ لہذا آؤ اور اس فضل خداوندی سے فیض یاب ہو جاؤ! 

اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو پورے قرآن مجید پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے. میں خاص طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا ہوں کہ سورۃ الحدید کے درس کی تکمیل کے ساتھ مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا جودرس ہم نے از سر نوشروع کیا تھا وہ آج اپنی تکمیل کو پہنچ گیا ہے. 

بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ‘ ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم