جولائی ۲۰۱۰

میں نے اس کو حال ہی میں سمجھا ہے کہ کو آپ نہاتے وقت جو سوچتے ہیں اُس کی اہمیت آپ کی سوچ سے زیادہ ہوتی ہے۔ میں جانتا تھا یہ خیالات کے لیے اچھا وقت ہے؛ لیکن اب میں کہتا ہوں یہ مشکل ہے کہ جو آپ نہاتے وقت سوچتے ہوں اُس کی علاوہ کسی چیز پر کام کریں۔

ہر ایک جس نے مشکل مسائل پر کام کیا ہے اس سے واقف ہے کہ حال تلاش کرنا کتنا مشکل ہے، اور پھر ایک دم سوال کے جواب کا آ جانا یوں ہی کچھ دیر کے بعد، کچھ اور کرتے ہوئے۔ آپ نہ سوچتے ہوئے بھی کچھ کرتے ہو۔ میں اب اس پر قائل ہوں کے صرف مشکل مسائل کا حال کرنے کے لیے مددگار نہیں بلکے ایک ضروری عمل ہے۔ مشکل کام اس کو براہ راست کنٹرول کرنا نہیں ہے۔ [۱]

جس نے مجھے اس کو واضع کیا وہ ایک خیال تھا جو کچھ عرصے سے میرے دماغ میں قائم تھا جو میں نہیں چاہتا تھا۔

میں نے دیکھا تھا کے سٹارٹ اپ بہت کم کام کر پاتے ہیں جب انہوں نے فنڈز حاصل کر لیے ہوتے ہیں، لیکن اس کا احاطہ ہم نے تب کیا جب ہم نے خود فنڈریزنگ کی۔ مسئلہ پیسے اکھٹے کرنا نہیں بلکہ جب آپ یہ کرتے ہیں تو یہ خیال آپ کے زہن کی اؤلین سوچ بن جاتا ہے۔ یہ بن جاتا ہے جو آپ سوچتے ہو، صبح نہاتے وقت۔ اور اس کا مطلب ہے باقی سوالات پر آپ کا زہن کام نہیں کرتا۔

میں فنڈریزنگ سے نفرت کرتا تھا جب میں وائیاویب چلاتا تھا، لیکن میں یہ بھول گیا کیوں۔ جب میں نے وائے.کمبینیٹر کے لیے پیسہ جمع کیا تو مجھے یا آیا کیوں۔ پیسوں کے معاملات آپ کے زہن کے لیے سب سے اہم ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ آپکو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ پیسہ لینا مشکل کام ہے۔ یہ چیز خود بہ خود نہیں ہوتی، جب تک آپ اسے صبح نہاتے وقت نہ سوچیں۔ اور پھر آپ کسی اور چیز پر کم ہی کام کریں گے۔ [۲]

(میں نے یہ ہی شکایت اپنے دوستوں سے سنی جو پروفیسر ہیں۔ پروفیسر آجکل پروفیشل فنڈریزر بن گئے ہیں جو ایک طرف ریسرچ کے لیے کچھ فنڈز اکھٹے کرتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے اسے درست کرنے کا۔)

وجہ یہ چیز میرے ساتھ اس قوت کے ساتھ جڑ گئی کہ میں پچھلے ۱۰ سال میں نے وہ ہی سوچا جو میں چاہتا تھا۔ تو جب میں یہ نہ کر پایا تو یہ فرق عیاں ہوا۔ لیکن میں نہیں سمجھتا یہ مسئلہ صرف میرے ساتھ ہی ہے، کیونکہ میں نے ہر سٹارٹ اپ کو اس میں رگرڑتے اور رکتے دیکھا ہے جب وہ فنڈریزنگ کر رہے ہوں، یا خریداروں سے بات چیت۔

آپ اپنے خیالات کے بہاؤ کو براہ راست کنٹرول نہیں کر سکتے۔ اگر آپ اسے کنٹرول کرتے ہیں، تو یہ بہتے نہیں ہیں۔ لیکن آپ ان کو بالواسطہ کنٹرول کر سکتے ہیں، جب آپ اپنے آپکو جن چیزوں پر آپ کام کرتیں ہیں اُس کا تعین خود کریں۔ یہ میرے لیے ایک سبق تھا: آپ کے لیے جو اہم ہے اُس پر ہوشیار رہو۔ کوشش کرو اُن معاملات میں پڑنے کی جو سب سے زیادہ ضروری ہوں۔

آپ کے پاس مکمل کنٹرول نہیں ہے، بےشک۔ ایک حادثہ آپکے زہن میں کوئی اور خیالات دکھیل سکتا ہے۔ لیکن حادثات کی پیش نظر آپکا اپنے اوپر بہت زیادہ کنٹرول ہے، کہ کونسا خیال آپ کے زہن پر چھا جائے۔

میں نے دو طرح کے خیالات ڈھونڈے ہیں جن سے چھٹکارا حاصل کرنا اچھا ہو گا، خیالات جیسے کے نیل پرچ جو دلچسپ خیالات کو زہن سے نکال دیتے ہیں۔ ایک میں پہلے کہہ چکا ہوں: پیسوں کے متعلق سوچ۔ پیسے حاصل کرنے کی تعریف ہی توجہ کو کھینچ لیتی ہے۔ دوسرے جھگڑے۔ دونوں آپکی غلط توجہ کے حصل کا باعث بنتے ہیں، انکی شکل ویلکرو دلچسپ خیالات کے جیسے ہوتی ہے۔ تو جھگڑوں سے اجتاناب کرو اگر اصل کام کرنا ہے۔ [۳]

نیوٹن بھی اس ہی جال میں گرا۔ ۱۶۷۲ میں رنگوں کی نظریہ کو شائع کرنے کے بعد وہ جھگڑوں میں گھرا رہا، آخر کار فیصلہ کیا کے اشاعت کو بند کروں:
میں دیکھتا ہو میں نے اپنے آپ کو فلسفہ کا غلام بنا دیا ہے، لیکن اگر مسٹر لینس کے کاروبار سے آزاد ہو سکوں تو میں اسے ہمشہ کے لیے خیرآباد کہہ دوں گا، سوائے اُس کے جو میں اپنی ذات خوشی کے لیے کرتا ہوں یا چھوڑتا ہو اپنے بعد کے لیے۔ تو میں دیکھتا ہو آیا کسی کو کچھ بھی نہیں کرنا نیا یا اپنے کام کا دفاع کا غلام بن جانا ہے۔ [۴]
 لینس اور اُس کے شاگرد لیج میں نیوٹن کے کام پر بہت زیادہ تنقید کرتے تھے۔ نیوٹن کا سوانحیات لکھنا والا ویسٹفال کو لگتا تھا نیوٹن شاید بڑھ چڑھ کر بات کر رہا ہے:
یاد کرو جب نیوٹن نے "غلامی" لیج کو لکھی یہ پانچ جوابات اور چودہ صفحات جو سال کے دوران شائع کی۔
 میں نیوٹن سے ہمدری رکھتا ہوں۔ مسئلہ ۱۴ صفحات کا نہیں، لیکن اس متنازہ بیوقوفی کا ہر وقت نیوٹن کے دماغ پر سوار رکھنا۔ جبکہ وہ کچھ اور سوچنا چاہتا تھا۔

اپنی رخسار کو ایک طرف کر لینا خود غرضی ہے لیکن اس کا فائدہ ہے۔ جو آپکو زخم دیتا ہے وہ آپکو دو گنا تکلیف دیتا ہے، ایک اُس زخم کی جو اُس نے دیا، دوسرا اُس نے آپکو سوچنے پر مجبور کیا۔ اگر آپ زخموں کو بھول جاؤ تو آپ دوسری تکلیف کو بھول جاؤ گے۔ میں نے دریافت کیا ہے کہ اگر میں لوگوں کے کیے ہوئے ظلم کو اپنے سے یہ کہہ کے بھولا دوں کہ: اس بات کی میرے زہن میں کوئی جگہ نہیں تو یہ مجھے بہت سی بری چیزیں سوچنے سے روکتی ہے۔ میں ہمیشہ یہ سوچ کر خوش ہوتا ہوں کہ میں جھگڑوں کو بھول گیا ہوں کیوں کہ میں ان کے بارے میں سوچ نہیں سکتا۔ میری بیوی سوچتی ہے میں اُس سے زیادہ معاف کر دیتا ہوں، لیکن میرے مقاصد خود غرض ہیں۔

مجھے شک ہے بہت سے لوگوں کو یہ نہیں پتا اُن کے زہن میں سب سے اہم خیال کیا ہے، کسی بھی وقت میں۔ میں اکثر اسے بھول جاتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں جو میں چاہتا ہوں وہ خیال میرے زہن میں سب سے اُوپر ہے، ناکہ وہ جو ہے۔ لیکن اس کو معلوم کرنا آسان ہے: بس نہاو۔ کونسی سوچ آپکے خیال میں سب سے اُور ہے جو بار بار آپکے زہن میں آتی ہے؟ اگر یہ وہ نہیں جو آپ سوچ آپ سوچنا چاہتے ہیں، تو آپ کو کچھ بدلنا پڑے گا۔


نوٹز
[۱] بےشک ایسے سوچ کے لیے نام ہیں لیکن میں اسے "متعلقہ سوچ" کہتا ہوں۔
[۲] یہ ہمارے معاملہ میں خاصہ صاف تھا، کیونکہ فنڈریزنگ مشکل تھی، معاملات کچھ ماہ تک چلتے رہے۔ بہت زیادہ پیمانے پر پیسے کی ادل بدل لوگ یوں ہی نہیں سوچتے۔ سوچ ضرورت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے؛ شاید ایک لکیر میں نہیں بلکہ ایک وحدانیت کی شکل میں۔
[۳] ارتباط: ایڈمنسٹرٹر مت بنو، ورنہ آپکو پیسہ اور جھگڑوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
[۴] اولڈنبرگ کے نام خط، حوالہ ویسٹ فال، رچرڈ، اسحاق نیوٹن کی زندگی، صفحہ ۱۰۷۔