اس آیت کے حوالے سے یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ ایمان بالملائکہ کی اہمیت کیا ہے! ورنہ بظاہر تو اس بات پر ایک تعجب سا ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ایمان بالملائکہ پر اس قدر زور کیوں دیا گیا ہے. آیۂ بر میں‘ جو ہمارے اس منتخب نصاب کا دوسرا سبق تھا‘ ملائکہ پر ایمان کا ذکر موجود تھا: وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ (البقرۃ:۱۷۷اسی طرح حدیث جبریل کو ذہن میں لایئے. جب حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور سے سوال کیا کہ ’’اَخْبِرْنِیْ عَنِ الْاِیْمَانِ‘‘ تو نبی اکرم کی جانب سے جواب یہی دیا گیا کہ اَنْ تُؤْمِنَ بِاللّٰہِ وَمَلَائِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ… الی الآخر (۱)معلوم ہوا کہ ایمان بالملائکہ کی بڑی اہمیت ہے.اس کا اصل سبب یہ ہے کہ اس کے بغیر وحی کی توجیہہ ممکن نہیں ہے. اور حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں بہت بڑی ٹھوکر کھائی ہے کچھ فلاسفہ قدیم نے اور انہی کے اتباع میں بہت سے دانشورانِ جدید نے بھی . اس دور میں سرسید احمد خاں کو اس طبقہ فکر کا سب سے بڑا نمائندہ قرار دیا جا سکتا ہے جنہوں نے ملائکہ کے وجود کا صریح انکار کیا کہ ملائکہ کا کوئی صاحب تشخص وجود نہیں ہے. سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وحی کی توجیہہ کیا ہے! بالآخر انہیں کہنا پڑا کہ وحی کا چشمہ تو قلب نبی سے ہی پھوٹتا ہے. وحی کو نبی تک لانے والی خارج میں کوئی ہستی موجود نہیں ہے. وحی کو لانے والے خارجی عنصر کے اس انکارِمطلق کا نتیجہ یہ ہوا کہ وحی کا مسئلہ ایک چیستان بن گیا. وحی کی اصل حقیقت پھر کیا ہے؟سرسید احمد خاں نے ایک شعر میں اپنے اس گمراہ کن خیال کو بڑے شد ومد کے ساتھ پیش کیا ہے ؎

زجبریل امیں قرآں بہ پیغامے نمی خواہم
ہمہ گفتارِ معشوق است قرآنے کہ من دارم

(۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الایمان والاسلام والاحسان. اگرچہ مصرع ثانی میں معشوق کا لفظ دو معنی دے رہا ہے‘ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ معشوق سے مراد نبی اکرم ہیں اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ معشوق سے ان کی مراد ذاتِ باری تعالیٰ ہے. بہرحال یوں کہا جا سکتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو انہوں نے بیک بینی و دوگوش اس معاملے سے نکال باہر کیا. قرآن مجید کا یہ مقام اس معاملے کی اہمیت کو واضح کر رہا ہے. اور جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ اہم مضامین قرآن مجید میں دو مرتبہ ضرور آتے ہیں. 

ذہن میں رکھیے کہ یہ مضمون سورۃ التکویر میں بھی آیا ہے اور اس کا اعادہ سورۃ النجم میں بھی ہوا ہے کہ نبی اکرم نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی اصل ملکی حالت میں دوبار دیکھا ہے. اس ملاقات کی بڑی اہمیت ہے. اس لیے کہ کسی روایت میں اگر راویوں کی کڑیاں متصل نہ ہوں‘ ان کی ملاقات ثابت نہ ہو تو وہ روایت ناقابل اعتماد ہو جائے گی. قرآن بھی ایک روایت ہے‘ یہ اللہ کی حدیث ہے جو بروایت جبریل علیہ السلام پہنچی محمد تک اور پھر نبی اکرم نے اسے پہنچایا انسانوں تک. اس اہم اور نازک معاملے میں روایت کی ان کڑیوں کا اتصال بہت اہمیت رکھتا ہے. سورۃ التکویر میں حضور اور حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ملاقات کا ذکر بڑے اہتمام سے ہوا ہے: 
وَ لَقَدۡ رَاٰہُ بِالۡاُفُقِ الۡمُبِیۡنِ ﴿ۚ۲۳﴾ کہ حضور نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تھا افق مبین پر! اسی طور سے سورۃ النجم میں دوسری ملاقات کا ذکر ہے: وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی ﴿ۙ۱۳﴾ عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی ﴿۱۴﴾ کہ حضرت جبرائیل کو اصل ملکی صورت میں آنحضور نے دوسری بار شب معراج میں سدرۃ المنتہیٰ پر دیکھا تھا. قرآن مجید نے ان دونوں کی اس ملاقات کو دو مقامات پر اس قدر صراحت کے ساتھ اسی لیے بیان کیا ہے کہ یہ وحی کی دو کڑیاں ہیں. رسولِ مَلک نے اللہ تعالیٰ سے اس پیغام کو حاصل کر کے پہنچایا رسولِ بشر تک اور رسولِ بشر نے اس کو پہنچا دیا خلقِ خدا تک. یہ گویا ایمان بالرسالت کی ایک اہم بحث تھی جو اس مقام پر ایک آیت میں آئی!

اب چوتھی آیت میں عقیدۂ معاد اور عقیدۂ آخرت کا بیان ہے : 
یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ ’’وہ (اللہ تعالیٰ) جانتا ہے جو کچھ کہ لوگوں کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے‘‘. لیکن یہ جاننا کس لیے ہے؟ جواب بھی ساتھ ہی موجود ہے . وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ ﴿۷۶﴾ ’’بالآخر سارے معاملات اللہ کی طرف لوٹا دیے جائیں گے‘‘. تمام معاملات آخری فیصلے کے لیے اس کی عدالت میں پیش ہوں گے. ہر شخص کو جواب دہی کے لیے وہاں حاضر ہونا ہو گا.

یہاں ایک آیت میں بڑے اختصار کے ساتھ عقیدۂ آخرت کا گویا لب لباب اور خلاصہ سامنے لے آیا گیا ہے. اس اختصار کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۂ مبارکہ (سورۃ الحج) کے پہلے رکوع میں چونکہ انتہائی وضاحت کے ساتھ آخرت کا بیان ہوا ہے‘ لہذا یہاں آخری رکوع میں اس کی طرف ایک اجمالی اشارے پر اکتفا کیا گیا ہے. بہرحال یہ چار آیات ہیں جن کا آغاز ’’یٰٓــاَیـُّـہَا النَّاسُ‘‘ کے خطاب سے ہوا ہے. ان میں جو اہم مضامین آئے ہیں ان میں شرک کا ابطال‘ توحید کا اثبات‘ شرک کا اصل سبب مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدْرِہٖط ‘ شرک کا انسان کی سیرت و کردار پر یہ اثر کہ پھر وہ ایک پست شخصیت کا مالک ہو کر رہ جاتا ہے اور توحید کا اصل حاصل کہ اللہ کے پجاری اور اللہ کے پرستار خود اپنی ذات میں بھی ترفع حاصل کرتے ہیں‘ پھر نبوت و رسالت کی اہم بحث میں سلسلۂ وحی کی دو کڑیوں رسولِ مَلک اور رسولِ بشرکا ذکر اور اس کے بعد عقیدۂ آخرت کا بیان سب شامل ہیں.