معلوم ہوا کہ اب ہم پھر اسی مقام پر پہنچ گئے جہاں سے کہ ہم نے سفرکا آغاز کیا تھا. اس آیۂ مبارکہ میں گویا سورۃ العصر اپنے جملہ مضامین کے ساتھ پھر ہمارے سامنے آگئی. اس لیے کہ وہاں نجات کی شرطِ اوّل تھی ایمان‘ یہاں خطاب ہوا ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ’’اے اہل ایمان!‘‘ کے الفاظ سے. وہاں ایمان کے فوراً بعد وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کی شرط مذکور تھی. یہاں اسی عمل صالح نے ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرََ کے الفاظ میں چار اوامر کی شکل اختیار کر لی. ’’رکوع کرو‘ سجدہ کرو‘ بندگی کرو اپنے ربّ کی اور تمہارا عمل خیر پر مبنی ہو جائے‘‘. البتہ ’’وَافْعَلُوا الْخَیْرَ ‘‘ کو اس کے وسیع تر مفہوم میں لیجیے ‘جیسے کہ حضور نے فرمایا: خَیْرُ النَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاسَ (۱کہ لوگوں میں بہتر وہی ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچا رہا ہو‘ جس سے لوگوں کو نفع پہنچ رہا ہو.اب ظاہر بات ہے کہ نفع صرف دنیا کا نفع ہی تو نہیں ہے. یہ نفع کا نہایت محدود تصور ہے .اور اگر فی الواقع آنکھیں کھل گئی ہوں‘ حقیقت منکشف ہو گئی ہو‘ آخرت کا علم انسان کو حاصل ہو گیا ہو‘ تو اب ’’نفع‘‘ کا مفہوم بدل جائے گا. اب انسان کو نظر آئے گا کہ اصل نفع تو آخرت کا نفع ہے. اصل جیت وہاں کی جیت اور اصل ہار وہاں کی ہار ہے. سورۃ التغابن میں ہم پڑھ چکے : ذٰلِکَ یَوۡمُ التَّغَابُنِ ؕ (آیت ۹’’وہ ہے ہار اور جیت کے فیصلے کا دن‘‘. جو اُس روز نفع میں رہا وہ حقیقتاً نفع میں رہا اور جو اُس روز گھاٹے میں قرار دیا گیا وہی ہے اصل میں گھاٹا پانے والا!